
مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13111
تاریخ اجراء:30 ربیع الثانی 1445 ھ/15 نومبر 2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد کی وراثت تقسیم ہوئی ہے ۔ان کی وراثت میں سے مجھے چار دُکانیں ، ایک پلاٹ اور ایک مکان ملا ہے، جس میں میری رہائش ہے۔ اس کے علاوہ میرے پاس رقم، سونا، چاندی وغیرہ کوئی اور مال موجود نہیں ۔ ترکہ سے ملنے والی چار دکانیں کرائے پر ہیں، جن کی مکمل آمدنی گھر کی ضروریات میں خرچ ہوجاتی ہے اور پلاٹ سے کوئی آمدنی نہیں ہے۔ میرے والد نے پلاٹ، مکان، دکانیں بیچنے کی نیت سے نہیں خریدی تھیں اور میرا بھی اسے بیچنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ پلاٹ کی مالیت تقریباً 30 سے 35 لاکھ کے درمیان ہے اور مجھ پر تین لاکھ کا قرض بھی ہے۔ اس صورت میں معلوم یہ کرنا تھا کہ مجھ پر زکوٰۃ یا قربانی لازم ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق جو دُکان، مکان اور پلاٹ آپ کو وراثت میں ملے ہیں، ان میں سے کسی بھی چیز کی وجہ سے آپ پر زکوٰۃ لازم نہیں کہ قوانینِ شریعت کے مطابق زکوٰۃ لازم ہونے کے لیے مال کا نامی ہونا ضروری ہے اورمذکورہ چیزیں جب تجارت کے لیے نہیں ہیں ،تو مالِ نامی شمار نہیں ہوں گی ۔ جب کسی وارث کو وراثت میں اموالِ غیر نامیہ میں سے کوئی چیز ملے، تو وارث پراس کی زکوٰۃ بھی لازم نہیں ہوگی خواہ وہ اس میں تجارت کی نیت کرے یا نہ کرے۔
البتہ قربانی کے لئے مال کا نامی ہونا ضروری نہیں بلکہ حاجتِ اصلیہ سے زائد بقدرِ نصاب مال کا مالک ہونا ضروری ہے ۔ آپ کی ملکیت میں موجود پلاٹ آپ کی حاجتِ اصلیہ سے زائد ہے،جس کی مالیت بھی اتنی زیادہ ہے کہ اس سے تین لاکھ روپےقرض نکالنے کے بعد بھی آپ صاحبِ نصاب ہی کہلائیں گے ،اس لئے ایامِ قربانی میں یہی صورت حال رہی اور قربانی واجب ہونے کی دیگر شرائط بھی پائی گئیں ،تو آپ پر قربانی واجب ہوگی ۔
زکاۃ لازم ہونے کے لئے مال کا نامی ہونا ضروری ہے۔اس کے متعلق مبسوط سرخسی میں ہے:”ان نصاب الزکاۃ المال النامی ومعنی النماء فی ھذہ الاشیاء لا یکون بدون التجارۃ“یعنی زکاۃ کا نصاب مالِ نامی ہوتا ہے اور ان اشیا (یعنی مکان، پلاٹ وغیرہ)میں نمو کا معنی تجارت کے بغیر نہیں پایا جاتا۔(المبسوط ، جلد2،صفحہ 198، مطبوعہ بیروت)
غیر تجارتی مال وراثت میں ملا، تو تجارت کی نیت سے وہ تجارتی نہیں ہوگا۔اس کے متعلق فتاوی ہندیہ میں تبیین سےہے:” لو ورثہ ونواہ للتجارۃ لا یکون لھا“یعنی اگر کسی چیز کا وراث ہوا اور اس میں تجارت کی نیت کی تو وہ تجارت کے لئے نہیں ہوگی۔(فتاوی ھندیہ، جلد1،صفحہ 174، مطبوعہ مصر)
حاشیۃ الشلبی میں ہے:”قال فی الذخیرۃ: واتفق اصحابنا علی ان من ورث اعیانا ونوی التجارۃ فیھا عند موت مورثہ لا یعمل بنیتہ“یعنی ذخیرہ میں فرمایا:اور ہمارے اصحاب کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص (غیر تجارتی ) سامان کا وارث ہوا اورمورث کی موت کے وقت اس نے اس میں تجارت کی نیت کی، تو اس کی نیت پر عمل نہیں ہوگا۔(حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، جلد 2،صفحہ 29، مطبوعہ بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے:”جس عقد میں تبادلہ ہی نہ ہو جیسے ہبہ،وصیت ،صدقہ یا تبادلہ ہو مگر مال سے تبادلہ نہ ہو جیسے مہر،بدلِ خلع ، بدلِ عتق، ان دونوں قسم کے عقد کے ذریعہ سے اگر کسی چیز کا مالک ہوا تو اس میں نیتِ تجارت صحیح نہیں یعنی اگرچہ تجارت کی نیت کرے زکاۃ واجب نہیں ، یوہیں اگر ایسی کوئی چیز میراث میں ملی ، تو اس میں بھی نیتِ تجارت صحیح نہیں۔مورِث کے پاس تجارت کا مال تھا ، اس کے مرنے کے بعد وارثوں نے تجارت کی نیت کی تو زکاۃ واجب ہے۔“(بھارِ شریعت،جلد1،صفحہ 883، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
قربانی کے نصاب کے متعلق در مختار و رد المحتار میں ہے:”(وشرائطھا :الاسلام والاقامۃ والیسار)بان ملک مائتی درھم او عرضا یساویھا غیر مسکنہ وثیاب اللبس ومتاع یحتاجہ“یعنی قربانی واجب ہونے کی شرائط مسلمان ہونا، مقیم ہونا اور مالدار ہونا اس طرح کہ وہ شخص دو سو درہم یا اس کے مساوی مالیت کا مالک ہو جو رہائشی مکان ، پہننے کے کپڑے اور حاجت کا سامان کے علاوہ ہو ۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 9،صفحہ 520، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا:”اگر زید کے پاس مکانِ سکونت کے علاوہ دو ایک اور ہوں، تو اس پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟“
اس کے جواب میں امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”واجب ہے جبکہ وہ مکان تنہا یا اس کے اور مال سے کہ حاجتِ اصلیہ سے زائد ہو مل کر چھپن روپے(یعنی امامِ اہلسنت کے دور میں رائج چاندی کے سکے) کی قیمت کو پہنچیں“(فتاوی رضویہ، جلد20،صفحہ 361، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟