پانچ دن لیٹ آنے پر پورے دن کی تنخواہ کاٹنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

 

پانچ دن لیٹ آنے پر پورے دن کی تنخواہ کاٹنا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے اپنی کمپنی میں ملازمین کے لیٹ آنے کی وجہ سے یہ اصول بنایا ہے کہ جو ملازم پانچ دن لیٹ آئے گا اس کی ایک دن کی تنخواہ کاٹی جائے گی ،اسی اصول کے مطابق ہم ہر ماہ لیٹ آنے والے ملازمین کی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں۔ کیا ہمارا ایسا کرنا شرعا جائز ہے؟ اگر یہ طریقہ درست نہیں تو پھر ملازمین کی اصلاح و تنبیہ کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا جائے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں ملازمین کے لیٹ آنے پر آپ فقط اتنے منٹ کی کٹوتی کرسکتے ہیں جتنی انہیں تاخیر ہوئی، پانچ دن  چند منٹ  لیٹ آنے پر ایک دن کی تنخواہ کاٹ لینا ملازمین پر ظلم کرنا اور مال غیر کو ناحق طریقے سے لینا ہے نیز اس میں تعزیر بالمال بھی ہے جو کہ منسوخ ہے اورمنسوخ پرعمل کرنا، ناجائزوحرام ہے۔

آپ پر لازم ہے کہ اب تک جو رقم اس طرح ملازمین کی کاٹی ہے وہ انہیں واپس کریں اور اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ بھی کریں اور اگر اجارہ فاسدہ ہوا تھا تو اسے فسخ کرکے نئے سرے سے اجارہ کریں۔

مذکورہ ناجائز صورت کا متبادل طریقہ

ملازمین کو وقت کا پابند بنانے کے لیے ایک جائز طریقہ یہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ ملازمین کی مختلف کیٹیگریز بنالی جائیں وقت کے پابند ملازمین کو A کیٹیگری میں ، چند دن لیٹ آنے والوں کو Bکیٹیگری میں اور زیادہ دن لیٹ آنے والوں کو Cکیٹیگری میں ڈالا جائے، اب ملازمین کی جو بھی مراعات ہوتی ہیں جیسے سالانہ اضافہ ،مختلف الاؤنسز وغیرہ وہ انہیں کیٹیگریز کے حساب سے کم زیادہ دیے جائیں، یوں زیادہ مراعات حاصل کرنے کے لیے ملازمین وقت کی پابندی کریں گے۔

باطل طریقے سے دوسروں کا مال نہ کھانے سے متعلق حکم قرآنی ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ‘‘

ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پارہ:05،سورہ النساء،آيت:29)

بغیر کسی سبب شرعی کے دوسروں کا مال لینے سے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’لايجوز لاحد من المسلمين اخذ مال احد بغير سبب شرعى“

یعنی:کسی مسلمان کے لئے دوسرے کامال بغیر سبب شرعی کے لینا جائز نہیں۔(رد المحتار مع درمختار ، ج6، ص106،مطبوعہ بيروت)

ملازم نے جتنا ٹائم کم دیا صرف اسی وقت کی تنخواہ کاٹنا جائز ہے، زیادہ کاٹنا ظلم ہے جیسا کہ ایک سوال کے جواب میں امام اہلسنت فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:”اس روز جتنے گھنٹے کام میں تھا ان میں جس قدر کی کمی ہوئی صرف اتنی ہی تنخواہ وضع ہوگی (یعنی کاٹی جائے گی)،ربع ہو تو ربع، یا کم زیادہ جس قدر کی کمی ہوئی صرف اتنی تنخواہ وضع ہوگی ،مثلاً چھ گھنٹے کام کرنا تھا اور ایک گھنٹہ نہ کیا تو اس دن کی تنخواہ کا چھٹا حصہ وضع ہوگا،زیادہ وضع کرنا ظلم ہے۔(فتاوی رضویہ ،جلد19،صفحہ516، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

اس طرح کی شرطیں عقد اجارہ میں لگانے سے اجارہ فاسد ہوتا ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ شریف میں ہے:’’ پھر اگر اس قسم کی شرطیں عقد اجارہ میں لگائی گئیں جیساکہ بیان سوال سے ظاہر ہے کہ وقت ملازمت ان قواعد پر دستخط لے لئے جاتے ہیں، یا ایسے شرائط وہاں مشہور ومعلوم ہو کرالمعروف کالمشروط ہوں، جب تو وہ نوکری ہی ناجائز وگناہ ہے، کہ شرط فاسد سے اجارہ فاسد ہوا، اور عقد فاسدحرام ہے۔ اور دونوں عاقد مبتلائے گناہ، اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ واجب ہے ۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد19،صفحہ506، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

مالی جرمانے سے متعلق فرماتے ہیں:’’جرم کی تعزیر مالی جائز نہیں کہ منسوخ ہے او ر منسوخ پر عمل حرام ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد19،صفحہ506، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0443

تاریخ اجراء:28جمادی الاخری 1446ھ /31دسمبر 2024ء