اکاؤنٹ میں غلطی سے آنے والی رقم کا حکم

 

اکاؤنٹ میں آنے والی رقم کا کیا کریں؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے جاز کیش  اکاؤنٹ میں چند ہزار روپے کی  رقم آگئی ، اب چھ ماہ ہوچکے ہیں کوشش کے باوجود اصل مالک کا علم نہیں ہوا اور معلومات کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ رقم کسی ایجنٹ کے ذریعے بھیجی گئی ہے اور ایجنٹ کے پاس کئی افراد آ کر رقم ٹرانسفر کرواتے رہتے ہیں ، اس لیے مالک تک پہنچنے کی فی الحال کوئی امید نہیں ہے اور کسی نے  خود سے بھی رابطہ نہیں  کیا۔ اب اس رقم کا کیا کیا جائے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں مذکورہ پیسوں پر لقطہ کاحکم لگے گا کیونکہ  لقطہ اس مال کو کہتے ہیں جو پڑا ہوا ملے اور اس کے مالک کا علم نہ ہو ۔لہٰذا ان پیسوں کو ہرگز خود استعمال نہ کریں بلکہ اولاً ایجنٹ کے پاس جاکر اس سے معلومات لیں  اور کسی طرح اصل مالک تک یہ رقم پہنچانے کی کوشش کریں۔ایجنٹ کو بھی مطلع کر دیں کہ مالک آئے تو آپ کو خبر کرے۔  اگر ہر طرح کی کوشش کرنے بعد بھی مالک کا علم نہ ہوسکے اور ظن غالب ہو کہ اب مالک نہیں آئے گا تو اس صورت میں آپ کو اختیار ہے کہ  اپنی حفاظت میں رکھیں یا کسی شرعی فقیر کوبطور  صدقہ دےدیں ۔ اگر  خود شرعی فقیر ہیں تو اپنے صَرف میں بھی لاسکتے ہیں ، اسی طرح قریبی رشتہ داروں میں کوئی شرعی فقیر ہے تو اسے بھی دے سکتے ہیں۔ نیز مصارفِ خیر مثلاً مساجد   ، مدارس وغیرہ میں بھی صَرف کر سکتے ہیں۔

علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ لقطہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

”وفی التتارخانیہ عن المضمرات :مال یوجد ولا یعرف مالکہ ولیس بمباح 

یعنی : تتارخانیہ میں مضمرات سے ہے لقطہ اس مال کو کہتے ہیں جو پڑا ہوا   ملے اور اس کا مالک معلوم نہ ہو اور نہ ہی مباح  مال ہو۔ (در مختار ،جلد 6،صفحہ 421،دار المعرفہ بیروت)

مال لقطہ کے حکم کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے:

”یعرف الملتقط اللقطۃ فی الاسواق والشوارع مدۃ یغلب علی ظنہ ان صاحبھا لا یطلبھا بعد ذلک۔۔۔ثم بعد تعریف المدۃ المذکورۃ الملتقط مخیر بین ان یحفظھا حسبۃ وبین ان یتصدق بھا“

 یعنی:جس کو کوئی گری ہوئی چیز ملے وہ بازاروں اور راستوں میں اتنی مدت تک اس کا اعلان کرے کہ غالب گمان ہوجائے کہ اب مالک اس چیز کو تلاش نہیں کرے گا،پھر اتنی مدت تشہیر کرنے کے بعداٹھانے والے کواختیار ہے کہ ثواب کی نیت سے لقطہ کی حفاظت کرے یااسے صدقہ کردے۔ (فتاوی ھندیہ،کتاب اللقطہ ،جلد2،صفحہ289،مطبوعہ کوئٹہ)

امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی علیہ الرحمہ(المتوفی 710ھ)فرماتے ہیں :

” وینتفع بھا لو فقیرا والا تصدق علی اجنبی ، وصح علی ابویہ ،وزوجتہ ،وولدہ لو فقراء“

یعنی : ملتقط اگر فقیر ہو تو وہ خود بھی لقطہ کی رقم کو استعمال کرسکتا ہےورنہ کسی اجنبی شرعی فقیر پر صدقہ کردے اور والدین، زوجہ اوراولاد اگر شرعی فقیر ہوں تو ان  کو بھی بطور صدقہ دے سکتا ہے ۔(کنز الدقائق،صفحہ394،مطبوعہ دار السراج  )

لقطہ مساجد، مدارس وغیرہا اُمورِ خیر میں صَرف کرنے سے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:

”ذلک ان المسجداذاخرب والعیاذباللہ واستغنی عنہ یعود عند محمد الی ملک البانی کما فی التنویر وغیرہ فاذا لم یعرف بانیہ صار لقطۃ، وقد قال الامام محمد حِ صرفہ الی مسجد آخر فعلم ان التصدق الماموربہ فی اللقطۃ ھوبھذاالمعنی الرابع الداخل فیہ الصرف الی المقابروالحیاض والمساجد“

ترجمہ: اس کی وجہ وہی ہے کہ مسجد ڈھے کر ناقابلِ استعمال ہوگئی اور لوگ مستغنی ہوگئے، تو امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اس کا مالک بانی ہوجاتا ہے  اور جب بانی کا پتہ نہ چلے تو وہ لقطہ ہوگئی، اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اس کو دوسری مسجد کی تعمیر میں صَرف کرنے کا حکم دیتے ہیں۔  تو معلوم ہوا کہ صدقہ کا یہ اطلاق اسی چوتھے معنی میں ہے اور اس کا مقابر،  حوض اور مسجد میں صَر ف کرنا صدقہ ہی ہے حالانکہ نہ یہاں تملیک نہ اباحت، نہ مالدار نہ فقیر۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد20، صفحہ552،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

مالِ لقطہ کا حکم بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ملتقط پر تشہیر لازم ہے یعنی بازاروں اور شارع عام اور مساجد ميں اتنے زمانہ تک اعلان کرے کہ ظن غالب ہو جائے کہ مالک اب تلاش نہ کرتا ہوگا۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اُسے اختیار ہے کہ لقطہ کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر تصد ق کردے۔(بہار شریعت ،جلد 2، صفحہ 475،مکتبۃ المدینہ )

ملتقط خود شرعی فقیر ہو تو مال لقطہ کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہےیا رشتہ داروں میں کسی شرعی فقیر کو بھی دے سکتا ہے  ،اس سے متعلق صدر الشریعہ  رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:”اٹھانے والا اگر فقیر ہے تو مدتِ مذکورہ تک اعلان کے بعد خود اپنے صَرف میں بھی لاسکتا ہے اور مالدار ہے تو اپنے رشتہ والے فقیر کو دے سکتا ہے ،مثلاً اپنے باپ ،ماں ،شوہر ،زوجہ ،بالغ اولاد کو دے سکتا ہے ۔“(بہار شریعت،جلد 2،صفحہ 476،مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-200

تاریخ اجراء:20 شوال المکرم 1445ھ/29اپریل 2024ء