
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ میرے دوست نے مجھے 24 کیرٹ کادس تولہ خام سونا یہ کہہ کر دیا کہ :’’یہ آپ رکھ لیں ، اگر بیچ کر اس کی رقم استعمال کرنا چاہیں تو استعمال کرلیں ،مجھے جب چاہئے ہوگا میں آپ کو بتا دوں گا ، آپ24 کیرٹ کا اتنا ہی سونا مارکیٹ سے خرید کر مجھے واپس کردینا‘‘۔ مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا میرا اس طرح امانت رکھوایا ہوا سونا فروخت کرکے رقم اپنی تجارت میں استعمال کرنا شرعاً جائز ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کا اپنے دوست سے دس تولہ خام سونا لینا، پھر اُسے فروخت کرکے اس کی رقم اپنے کاروبار میں استعمال کرنا، اور بعد میں دوست کے مطالبہ پر اسی معیار اور مقدار کا دس تولہ سونا دوست کو واپس دیناشرعی اعتبارسے جائزعقدہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص سونا،چاندی وغیرہ مثلی چیز اس طورپر لےکہ اسے فروخت کرکے فی الحال اپنی ضرورت میں استعمال کرے گااور بعد میں اس جیسی چیز واپس کرے گا، تو شرعاً یہ قرض کہلاتا ہے۔اور اگر قرض پر کوئی نفع یا اضافہ مشروط نہ ہو، تو ایسے قرض کا لین دین جائزہے ، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔
علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ در مختار میں لکھتے ہیں:
’’ (عارية الثمنين والمكيل والموزون والمعدود والمتقارب) عند الإطلاق (قرض) ضرورة استهلاك عينها‘‘
یعنی سونا چاندی،مکیلی و موزونی اور عددی متقارب اشیاء کو عاریۃ ً لینا جب کہ ان کا استہلاک مقصود ہو ، قرض ہے۔ (الدر المختار،جلد8،صفحہ556،مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’مکیل و موزون وعددی متقارب کو عاریت لیا اور عاریت میں کوئی قید نہیں تو عاریت نہیں بلکہ قرض ہے مثلاًکسی سے روپے، پیسے، گیہوں،جَو وغیرہا عاریت لیے ،اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اِن چیزوں کو خرچ کریگااور اسی قسم کی چیز دے گا یعنی روپیہ لیا ہے تو روپیہ دے گا پیسہ لیا ہے تو پیسہ دے گا اور جتنا لیا اُتنا ہی دے دیگایہ عاریت نہیں بلکہ قرض ہے کیونکہ عاریت میں چیز کو باقی رکھتے ہوئے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے اور یہاں ہلاک و خرچ کرکے فائدہ اُٹھانا ہے لہٰذا فرض کروکہ قبلِ اِنتفاع یہ چیز یں ضائع ہو جائیں جب بھی تاوان دینا ہوگا کہ قرض کا یہی حکم ہے کہ لینے والا مالک ہوجاتاہے نقصان ہوگا تو اس کا ہوگادینے والے کا نہیں ہوگا۔ ہاں اگر ان چیزوں کے عاریت لینے میں کوئی ایسی بات ذکر کردی جائے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہوکہ حقیقۃًعاریت ہی ہے، قرض نہیں تو اُسے عاریت ہی قرار دیں گے مثلاً روپے یا پیسے مانگتا ہے کہ اس سے کوئی چیزوزن کرےگا یا اس سے تول کر باٹ بنائے گا یا اپنی دوکان کو سجائے گا تو عاریت ہے۔‘‘(بہارِ شریعت،جلد2،صفحہ58،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-559
تاریخ اجراء:8محرم الحرام 1447ھـ\03جولائی 2025ء