آڑھتی کا کسان اور کمپنی دونوں سے کمیشن لینا کیسا؟

آڑھتی کا دو طرفہ کمیشن لینا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے یہاں مختلف منڈیوں مثلاً غلہ منڈی، فروٹ منڈی وغیرہ میں کچھ حضرات مڈل مین کا کام کرتے ہیں، اور کسانوں کا مال مختلف کمپنیز میں مناسب ریٹ پر بکواتے ہیں، انہیں ’’آڑھتی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یہ حضرات کسانوں کی جانب سے کمپنیز کو خود ہی مال فروخت کرتے ہیں، کیا یہ حضرات کسانوں اور کمپنیز ، دونوں سے کمیشن لے سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

آڑھتی کی شرعی حیثیت ’’بروکر‘‘ یعنی کمیشن ایجنٹ کی ہے اور بروکر دونوں طرف سے کمیشن صرف اسی وقت لے سکتا ہے جب مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں، اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی کم ہوگی تو بروکر کا دوطرفہ بروکری لینا جائز نہیں:

1)وہاں دو طرفہ بروکری لینے کا عرف ہو۔

2) دونوں پارٹیوں کی طرف سے اس نے بھاگ دوڑکی ہو، کوشش کی ہو۔

3)وقت عقد یعنی خرید وفروخت کے وقت کسی ایک پارٹی کا وکیل بن کر سودا نہ کیاہو۔

لہذا اگر وہاں دو طرفہ بروکری لینے کا عرف نہ ہو یا اس نے دونوں پارٹیوں کی طرف سے بھاگ دوڑ نہ کی ہو یا کسی ایک پارٹی کا نمائندہ بن کر دوسری پارٹی سے سودا کیا ہو تو ایسے بروکر کا دو طرفہ بروکری لینا جائز نہیں۔ 

لہذاپوچھی گئی صورت میں آڑھتی چونکہ کسان کا وکیل بن کر کمپنیز سے ڈیل کررہا ہے تو اس صورت میں وہ فقط کسان سے طے شدہ  کمیشن لے سکتا ہے، کمپنیوں سے کمیشن لینا اس کے لئےجائز نہیں نیز کمیشن مقرر کرنے میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ کمیشن اجرت مثل یعنی  مارکیٹ میں رائج کمیشن سے زائد نہ ہو۔

در مختار و رد المحتار میں ہے:

’’بین الھلالین الدر المختار (واما الدلال فان باع العين بنفسه باذن ربها فاجرته على البائع) وليس له اخذ شىء من المشترى ، لانه هو العاقد حقيقة (وان سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع او المشترى او عليهما بحسب العرف“

یعنی:جب کمیشن ایجنٹ نے سامان کے مالک کی اجازت سے مال خود فروخت کیا تو اس کی اجرت بائع کے ذمہ ہوگی اور مشتری سے کمیشن لینا،جائز نہیں کیونکہ یہاں یہ خود ہی عاقد ہے ۔ ہاں اگر اس نے دونوں کے درمیان سودا کروانے میں کوشش کی اور سامان کے مالک نے خود اپنا سامان بیچا تو اب عرف کا اعتبار کیا جائے گا اور اسی عرف کے اعتبار سے کبھی فقط بائع پر، کبھی فقط مشتری پر اور کبھی دونوں پر کمیشن دینا  لازم ہوگا۔(رد المحتار على الدرالمختار، جلد7، صفحہ 93،مطبوعہ کوئٹہ)

العقود الدریہ میں ہے:

’’وفى فوائد صاحب المحيط: الدلال اذا باع العين بنفسه ثم اراد ان ياخذ من المشترى الدلالة ليس له ذلك، لانه هو العاقد حقيقة وتجب على البائع الدلالة، لانه فعل بامر البائع‘‘

یعنی:صاحب محیط کے فوائد میں ہے کہ دلال(بروکر) نے مالک کا سامان  خود فروخت کیا پھر خریدار سے بھی کمیشن لینا چاہتا ہے تو اس کےلئے ایسا کرنا،  جائز نہیں کیونکہ درحقیقت وہ خود عقد کررہا ہے لہذا اس کاکمیشن بائع پر لازم ہوگا کہ اسی کے کہنے پر اس نے سامان بیچا ہے۔ (العقود الدرية،جلد1،صفحہ247،دار المعرفۃ)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

’’بعه لى بكذا، ولك كذا فباع، فله اجر المثل“

یعنی:اگرکسی کو یہ کہا کہ تو میرے لئے اس چیز کو فروخت کردے تو میں تجھے اتنی رقم دوں گا تو فروخت کرنے والا اجرت مثل کا مستحق ہوگا۔

الاشباہ والنظائر کی اس عبارت کے تحت شرح حموی میں ہے:

’’اى ولايتجاوز به ماسمى“

یعنی:اجرت مثل اس وقت دی جائے گی جبکہ وہ اجرت مثل مقرر کردہ اجرت سے زائد نہ ہو۔(شرح حموى على الاشباه والنظائر، جلد3،صفحہ 131،مطبوعہ بیروت)

فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کمیشن ایجنٹ کی اجرت کے متعلق فرماتے ہیں:”اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگر چہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو، اور اگر قرارداد اجر مثل سے کم کا ہو تو کم ہی دلائیں گے کہ سقوط زیادت پر خود راضی ہوچکا۔“(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ453،مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

بہار شریعت میں ہے:”دلال کی اُجرت یعنی دلالی بائع کے ذمہ ہے جب کہ اُس نے سامان مالک کی اجازت سے بیع کیا ہواور اگر دلال نے طرفین میں بیع کی کوشش کی ہواور بیع اس نے نہ کی ہوبلکہ مالک نے کی ہو تو جیسا وہاں کا عرف ہو یعنی اس صورت میں بھی اگر عرفاًبائع کے ذمہ دلالی ہو تو بائع دے اور مشتری کے ذمہ ہو تو مشتری دے اور دونوں کے ذمہ ہو تو دونوں دیں۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحه639،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-0136

تاریخ اجراء:22 جمادی الاخری 1445ھ/05جنوری 2024ء