
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد محترم نے مجھے اپنی استعمالی گاڑی بیچنے کا کہا تو میں نے اپنے ایک دوست کو والد صاحب کی گاڑی مناسب ریٹ میں ادھار پر بیچ دی ، جب گھر آکر والد صاحب کو اس سودے کا بتایا تو انہوں نے گاڑی دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں نے تو رقم کی ضرورت کی بناء پر گاڑی نقد بیچنی تھی، اب میرا دوست گاڑی کا تقاضا کررہا ہے ، اب ہمارے لئے حکم شرعی کیا ہے؟
نوٹ:سائل نے بتایاکہ والد صاحب گاڑیوں کی تجارت نہیں کرتے اور نہ ہی یہ گاڑی تجارت کے لئے بیچ رہے تھے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کو اپنے والد صاحب کی گاڑی ادھار بیچنے کا اختیارنہیں تھا، جب آپ نے ان کی گاڑی ادھار بیچ دی تو اب یہ ان کی اجازت پر موقوف تھا کہ وہ اس بیع کو قبول کرلیں یا منع کردیں ، جب انہوں نے اس بیع کو قبول نہیں کیا تو یہ بیع ختم ہوگئی، اب ان سے گاڑی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ بیع کے وکیل کو ادھار بیچنے کی فقط اس وقت اجازت ہوتی ہے کہ جب موکل نے صراحۃً اس کی اجازت دی ہو یا وہ تجارت کے لیے سامان بیچ رہا ہو، پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد نے نہ صراحتاً ادھار بیچنے کی اجازت دی اور نہ ہی وہ تجارت کے لیے گاڑی بیچ رہے تھے لہذا آپ کو ان کی گاڑی ادھار بیچنے کا اختیار نہیں تھا۔ جب آپ نے ان کی گاڑی ادھار بیچ دی تو شرعی اعتبار سے انہیں یہ اختیار حاصل تھا کہ چاہیں تو اس بیع کو قبول کرلیں یا رد کردیں لہذا ان کا اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے گاڑی ادھار بیچنے سے منع کرنا ، جائز ہے، اب ان سے اس بیع کی وجہ سے گاڑی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔
درمختار میں ہے:
’’وصح (بالنسيئة ان) التوكيل بالبيع (للتجارة وان) كان (للحاجة لا) يجوز (كالمراة اذا دفعت غزلا الى رجل ليبيعه لها ويتعين النقد)به يفتى.خلاصة وكذا فى كل موضع قامت الدلالة على الحاجة كماافاده المصنف‘‘
یعنی : وکیل ادھار فروخت کرسکتا ہے جبکہ بیع کا وکیل بنانا بطور تجارت ہو۔اور اگروکیل بنانا بغرضِ حاجت ہو تو ادھار بیچنا جائز نہیں جیسا کہ کسی عورت نے مرد کو کاتا ہوا سوت بیچنے کا وکیل بنایا تو وہ ادھار نہیں بیچ سکتا بلکہ ایسی صورت میں نقد بیچنا متعین ہے، اسی پر فتوی ہے۔ اسی طرح ہر وہ مقام جہاں حاجت کی وجہ سے بیچنے کے قرائن موجود ہوں ، وہاں بھی وکیل ادھار نہیں بیچ سکتا جیسا کہ مصنف نے افادہ فرمایا ہے۔(در مختار مع رد المحتار،ج08،ص295،مطبوعه کوئٹہ)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’الوكيل بالبيع يملك البيع بالنسيئة وفى المنتقى قال ابو يوسف رحمة الله عليه هذا اذا كان للتجارة فان كان للحاجة لايجوز كالمراة اذا دفعت غزلا الى رجل ليبيعه لها فهذا على ان يبيعه بالنقد و به يفتى كذا فى الخلاصة‘‘
یعنی: وکیل بالبیع کو ادھار بیچنے کا اختیار ہوتا ہے۔منتقی میں ہے کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ادھار بیچنے کا اختیار اس وقت ہوتا ہے جبکہ تجارت کی غرض سے بیچ رہا ہو، اگر کسی حاجت کی وجہ سے بیچ رہا ہو تو ادھار بیچنا جائز نہیں جیسا کہ کسی عورت نے مرد کو کاتا ہوا سوت بیچنے کا وکیل بنایا تو اس پر نقد بیچنا لازم ہے، اسی پر فتوی ہے جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری،ج03،ص588،مطبوعه بیروت)
جب وکیل بالبیع موکل کی قید کی خلاف ورزی کرے تو ایسی بیع نافذ نہیں ہوتی جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:
’’فالتوكيل بالبيع لايخلو اما ان يكون مطلقا، واما ان يكون مقيدا، فان كان مقيدا يراعى فيه القيد بالاجماع حتى انه اذا خالف قيده لاينفذ على الموكل ولكن يتوقف على اجازته‘‘
یعنی:وکیل بالبیع کو جو وکالت دی جاتی ہے یا تو وہ مطلق ہوتی ہے یا مقید ہوتی ہے، اگر وہ مقید ہو تو بالاتفاق اس قید کی رعایت کی جائے گی حتی کہ اگر وکیل نے اس قید کی خلاف ورزی کی تو ایسی بیع موکل پر نافذ نہیں ہوگی بلکہ موکل کی اجازت پر موقوف رہے گی۔(بدائع الصنائع،ج6،ص27،مطبوعه بیروت)
بہار شریعت میں ہے:”بیع کا وکیل چیز اُدھار بھی بیع کر سکتا ہے جب کہ موکل بطور تجارت چیز بیچنا چاہتا ہو اور اگر ضرورت و حاجت کے لیے بیع کرتا ہے مثلاً خانہ داری کی چیزیں ضرورت کے وقت بیچ ڈالتے ہیں اس صورت میں وکیل کو اُدھار بیچنا جائز نہیں۔ عورت نے سوت کا ت کر کسی کو بیچنے کے لیے دیا اُدھار بیچنا جائز نہیں غرض اگر قرینہ سے یہ ثابت ہو کہ موکل کی مراد نقد بیچنا ہے تو اُدھار بیچنا درست نہیں۔‘‘(بہار شریعت،ج2،ص991،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-0376
تاریخ اجراء:25ربیع الاول 1446ھ/30ستمبر 2024ء