کیا ہوٹل یا دکان کے قریب گاڑی روکنے پر کمیشن لینا جائز ہے؟

ہوٹل یا دکان پر مسافروں کی گاڑی روکنے پر کمیشن لینا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم عرب شریف میں زائرین کو مقدس مقامات کی زیارت کرواتے ہیں، راستے میں بعض مقامات پر کچھ دوکان والوں کے پاس گاڑی رکواتے ہیں اور دوکانداروں سے پہلے ہی طے ہوتا ہے کہ ہر مرتبہ گاڑی روکنے پر وہ ہمیں 200 ریال دیں گے، اب چاہے زائرین ان دوکانوں سے شاپنگ کم کریں یا زیادہ یا بالکل شاپنگ نہ کریں، ہمیں اس کا کمیشن 200 ریال ملے گا، کیا ہمارا س طرح کمیشن لینا،جائزہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں موجود  طریقہ  کار اختیار کرکے  دوکاندار سے   بروکری لینا  ناجائز و گناہ ہے ۔

مذکورہ حکم کی تفصیل یہ ہے کہ  عرف کے مطابق یہاں   بروکری   میں  بروکر کا بنیادی کام  دو پارٹیوں کے درمیان  عقد کروانا ہے ، عقد کے بغیر    دیگر کام  کاج  عرفاً  قابلِ معاوضہ نہیں،     جبکہ  سوال میں موجود  صورت کے مطابق   دو پارٹیوں کے درمیان عقد کروانا  مقصود ہی نہیں  ، یہی وجہ ہے کہ    اگر کوئی بھی  زائر مسافر  دوکان سے  کچھ نہ خریدے پھر بھی   گاڑی والے کو   اپنے ریال ملیں گے۔

سوال میں درج تفصیل کے مطابق تویہ واضح ہے   کہ یہاں    بروکری  دو پارٹیوں میں  عقد کے بغیر صرف   افراد لانے پر  طے ہوئی ہے جوکہ   بروکری میں عرفا  ًقابلِ معاوضہ  منفعت    نہیں ، عرفاً ناقابل معاوضہ  منفعت پر اجارہ باطل ہوتا ہے ، لہٰذا مذکورہ اجارہ باطل ہے ۔

اگر اس  کو بروکری   نہ مانا جائے بلکہ  یہ کہا جائے کہ  گاڑی والے کا صرف افراد  لانے پر ہی  اجارہ ہے تو بھی یہ  اجارہ  باطل  ہے کیونکہ    ہر طرح کے افراد چاہے وہ خریداری میں دلچسپی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں  ، ان کے  لانے پر  اجارہ  بھی  معروف نہیں ۔ نیز اگر یہ گاڑی والا   زائرین کا  اجیر خاص ہے کہ اس کا  وقت کے تعین کے ساتھ اجارہ کیا گیا ہو،    تو بکے ہوئے وقت میں  یہ دوکاندار وں کا کام کرنے والا ہوگا  اور  بلااجازتِ زائرین  یہ بھی جائز نہیں،  زائرین کا مقصد کسی دکان پر جانا عموماً نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک غیر اعلانیہ روٹ ہوتا ہے ، دکان پر پہنچ کر زائرین کو پتاچلتا ہے کہ یہاں بھی آنا تھا۔

مذکورہ حکم کے جزئیات

اجارہ صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ  ایسی منفعتِ مقصودہ  پر اجارہ  ہو  جس  کا حصول عقدِ اجارہ کے ذریعہ معروف ہو :

بدائع الصنائع میں ہے :’’ومنها أن تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الاجارة ويجري بها التعامل بين الناس لانه عقد شرع بخلاف القياس لحاجة الناس ولا حاجة فيما لا تعامل فيه للناس‘‘  یعنی  اجارہ  صحیح ہونے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ  ایسی منفعتِ مقصودہ  پر اجارہ ہو کہ جس  کا عقدِ اجارہ کے ذریعہ  حصول معتاد ہو  اور لوگوں میں اس پر تعامل  ہو  کیونکہ یہ عقد  خلافِ قیاس حاجتِ ناس کی وجہ سے مشروع   ہے ۔ لہٰذا  جس  کام میں لوگوں کا  تعامل نہیں   اس میں جائز قرار دینے کی  کوئی حاجت ہی نہیں ۔(بدائع الصنائع، جلد4، صفحہ 192، مطبوعہ بیروت)

بروکری میں دو پارٹیوں  میں عقد کروائے بغیر  کام کاج  عرفاً قابل معاوضہ   منفعت نہیں :

شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:’’ان العادۃ  بین الناس انھم لا یعطون الاجرۃ اذا لم یتفق البیع فکان المعقود علیہ عادۃ ھو البیع دون مقدماتہ‘‘  یعنی  لوگوں میں معروف  یہ ہے کہ  جب بیع نہ ہو تو  بروکری نہیں دیتے ، لہٰذا    معقودعلیہ عرفاً بیع ہے نہ کہ بیع سے  پہلے کے افعال ۔(شرح مجلۃ الاحکام للاتاسی ، جلد2، صفحہ 677، مطبوعہ بیروت)

جس منفعت کا حصول عقدِ اجارہ کے ذریعے معروف  نہ ہو،  اس پر  اجارہ باطل ہوتا ہے :

ہدایہ میں ہے :’’وان اشتراها مطلقا وتركها على النخيل، وقد استاجر النخيل الى وقت الادراك طاب له الفضل لان الاجارة باطلة لعدم التعارف والحاجة فبقی الاذن معتبرا‘‘ یعنی اگر کسی نے بغیر  شرط کے   درخت پر لگے  ہوئے پھل خریدے اور  پھر درخت پر  ان کو باقی رکھا اور پھل پکنے تک درخت کرایہ پر لے لیا تو اس صورت میں  پھلوں میں جو  اضافہ ہوگا وہ  حلال ہوگا کیونکہ  درختوں کو پھل پکوانے کےلئے کرایہ پر لینا معروف نہیں اور نہ اس کی حاجت  ہے لہٰذا اجارہ باطل ہوگیا اور بائع کی طرف اجازت  معتبر  رہی۔(ھدایہ مع شرح بنایہ، جلد8، صفحہ40، دار الکتب العلمیۃ)

اجیر خاص بکے ہوئے وقت میں دوسرے کا کام نہیں کرسکتا :

فتاویٰ رضویہ میں ہے : ’’اجیر خاص  کو بے اجازت ِ آقا دوسرے  کا کام  کرنا،  جائز نہیں ۔ در مختار میں ہے :لیس للخاص  ان یعمل  لغیرہ ولو عمل نقص من اجرتہ  بقدر ما عمل (اجیر خاص دوسرے کے لئے عمل نہیں کر سکتا اور  اگر اس نے  عمل کیا تو   عمل کی مقدار اس کی اجرت کاٹ لی جائے )(فتاوی رضویہ ، جلد19، صفحہ 454، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0101

تاریخ اجراء: 13رجب المرجب 1445ھ/25جنوری 2024ء