
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ مندرجہ ذیل معاہدہ کے مطابق عقدِمضاربت کیا جاسکتا ہے؟ طریقہ کار یہ ہوگا:مضارب انویسٹر یعنی پیسہ دینے والے سے یہ شرط لگاتا ہےکہ ایک سال تک آپ، ہم سےاپنے پیسے واپس نہیں لیں گے اور ایک سال تک ہم آپ کے پیسوں سے کاروبار کریں گے، اور نفع باہم تقسیم کیا کریں گے۔
نفع کی تقسیم کاری دو میں سے کسی ایک طریقے پر ہوگی (1)انویسٹر کو ہر مہینے 20ہزار ملیں گے یا (2)پھرنفع کا 40 فیصد انویسٹرکا،60 فیصد مضارب یعنی کام کرنے والے کا۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ طریقے کے مطابق مضاربت کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟یا پھر نفع کی تقسیم کے لئے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ایک سال کی مدت تک مضاربت کرنے کی شرط لگانا تو جائز ہےلیکن بیان کردہ طریقے پر نفع معین کرنا ، ناجائز و گناہ ،اور مضاربت کو فاسد کردے گا کیونکہ یہ کہنا کہ انویسٹر کو 20 ہزار یا 40فیصد نفع ملے گا یہ ایسی شرط ہے جو نفع میں جہالت بھی پیدا کررہی ہے اور اس سے مضاربت بھی فاسد ہورہی ہے ۔ اسی طرح اگرہر مہینے 20ہزار انویسٹر کو نفع دینے کی شرط رکھیں گے تو بھی مضاربت فاسد ہوگی کیونکہ اس صورت میں نفع مشترک وفیصد کے اعتبار سےنہ رہا بلکہ ایک رقم فکس ہوگئی کہ اتنی ملے گی ہی ملےگی اور یہ بھی ناجائز ہے ، ممکن ہے کہ صرف 20ہزار یا اس بھی کم نفع ہو توسارا انویسٹر کو ہی مل جائے گا پھر مضارب کو کیا ملے گا ۔اور اس طرح نفع کی تقسیم کاری مقرر کرنے سے مضاربت فاسد ہوجائے گی ۔
نفع کی تقسیم کاری کا درست طریقہ :
مضاربت میں ضروری ہے کہ نفع مشترک و فیصد کے اعتبار سے ہو(مثلا آدھا ، تہائی ، چوتھائی وغیرہ ) اور نفع میں ہر ایک کاحصہ بھی معلوم ہو، نفع مجہول نہ ہو لہذا فریقین پر لازم ہے کہ نفع کو فیصد کے اعتبار سے اس طرح مقرر کریں کہ مضارب وانویسٹر دونوں کا نفع میں حصہ معلوم ہو مثلا: انویسٹر کو 40فیصد اور مضارب کو 60فیصد ملے گا یا انویسٹر کو 30فیصد اور مضارب کو 70فیصد ملےگا یا دونوں کو آدھا آدھا ملے گااور اسی کی مثل دیگر صورتیں ۔اس طرح نفع مشروط کرنے سے عقد مضاربت درست ہوجائے گا ۔
مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:
” اذا وقت رب المال المضاربۃ بوقت معین فبمضی ذلک الوقت تنفسخ المضاربۃ “
یعنی : اگر رب المال مضاربت کو ایک معین وقت کے لئے موقت کردے تو اس وقت معین کے گزرتے ہی مضاربت فسخ ہوجائے گی ۔
اس کی شرح میں ہے :
”لان تعیین الوقت مفید کالتقیید بنوع مال فھو معتبر “
یعنی : کیونکہ وقت کی تعیین مال کی ایک قسم کو مقید کرنے کی طرح مفید ہے لہذا تعیین وقت معتبر ہوگی ۔(درر الاحکام شرح المجلۃ الاحکام ،جلد3،صفحہ 454،دارالکتب العلمیہ)
مضاربت میں نفع مشترک وفیصد کے اعتبار سے ہواور نفع میں ہر ایک کا حصہ معلوم ہو،اس سے متعلق در مختار میں ہے :
”(وکون الربح بینھما شائعا )فلو عین قدرا فسدت (وکون نصیب کل منھما معلوما )عند العقد“
یعنی نفع مضارب و رب المال کے درمیان مشترک ہو ، اگر کوئی مقدار معین کرلی تو مضاربت فاسد ہوجائے گی اور دونوں میں سے ہر یک کا نفع میں حصہ بھی عقد کے وقت معلوم ہو ۔(در مختار ، جلد 8،صفحہ 501 ، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت)
ایسی شرط جو نفع میں جہالت پیدا کرے وہ مضاربت کو فاسد کردیتی ہے چنانچہ درمختار میں ہے:
”کل شرط يوجب جهالة فی الربح او يقطع الشركة فيه يفسدها “
یعنی:ہر وہ شرط جو نفع میں جہالت کا سبب بنے یا نفع میں شرکت کو ختم کرنے والی ہو تو وہ شرط مضاربت کو فاسد کر دے گی۔
خاتم المحققین علامہ شامی علیہ الرحمہ (فيه)کے تحت فرماتے ہیں:
”کما لو شرط لاحدھما دراھم مسماۃ“
یعنی : جیساکہ کسی ایک کے لئے معین درہم مشروط کردئیے۔(در مختارمع رد المحتار ، جلد 8،صفحہ 502 ، مطبوعہ دارالمعرفہ )
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” رب المال نے شہر یا وقت یا قسم تجارت کی تعیین کردی ہو یعنی کہہ دیا ہو کہ اس شہرمیں یا اِس زمانہ میں خرید و فروخت کرنا یا فلاں قسم کی تجارت کرنا تو مضارِب پر اِس کی پابندی لازم ہے اِس کے خلاف نہیں کرسکتا۔“(بہار شریعت،جلد 3،صفحہ 10،مکتبۃ المدینہ کراچی )
صدرالشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمہ مضاربت کے درست ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے نفع کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:”نفع دونوں کے مابین شائع ہو یعنی مثلاًنصف نصف یا دوتہائی ایک تہائی یا تین چو تھائی ایک چوتھائی۔ نفع میں اِس طرح حصہ معیّن نہ کیا جائے جس میں شرکت قطع ہوجانے کا احتمال ہو مثلاً یہ کہہ دیا کہ میں سو۱۰۰روپیہ نفع لوں گا، اِ س میں ہوسکتا ہے کہ کل نفع سو ہی ہویا اس سے بھی کم تو دوسرے کی نفع میں کیوں کر شرکت ہوگی۔(بہار شریعت جلد 3، صفحہ 2 ،مکتبۃ المدینہ کراچی)
نفع سے متعلق مزید فرماتے ہیں:”ہر ایک کا حصہ معلوم ہو لہذا ایسی شرط جس کی وجہ سے نفع میں جہالت پیدا ہو مضاربت کو فاسد کردیتی ہے مثلا یہ شرط کہ تم کو آدھا یا تہائی نفع دیا جائے گا یعنی دونوں میں سے کسی ایک کو معین نہیں کیا بلکہ تردید کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔(بہار شریعت ،جلد 3،صفحہ 3،مکتبۃ المدینہ کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-210
تاریخ اجراء:25 شوال المکرم 1445ھ/04مئی 2024ء