
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ زید،بکر سے ایک گھر پندرہ لاکھ روپے میں قسطوں پر خریدنا چاہتا ہے جس میں سے دس لاکھ روپے زید بوقتِ خریداری ادا کر دےگا اور پانچ لاکھ روپے ایک طے شدہ مدت میں قسط وار ادا کرے گا ،دس لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد زید وہ گھر اپنے قبضے میں لے کر کرائے پر دے دےگا اور اس سے حاصل ہونے والے کرائے سے بکر کو گھر کی بقیہ قیمت قسطوں کی صورت میں ادا کرے گا میراسوال یہ ہے کہ کیا زید کا گھر کی مکمل قسطیں ادا کرنے سے پہلے گھر کرائے پر دینا جائز ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مکمل قسطیں ادا کیے بغیر بھی زید کا مذکورہ گھر کو کرائے پر دینا جائز ہے۔
اس مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عقد بیع فقط درست ایجاب وقبول(Offer And Acceptance)کے ذریعے منعقد ہو جاتی ہے،جس کے بعد خریدارمبیع(Goods) کا اوربیچنے والاثمن(Price)کا مالک ہو جاتا ہے۔پھر ثمن کی ادائیگی کبھی نقد کی جاتی ہےاور کبھی ادھار قسطوں کی صورت میں کی جاتی ہے،ثمن کی ادائیگی نقد کی جائے یا قسط وار بہر دو صورت بیع درست ہوتی ہے،اور مشتری مبیع کا مالک بن جاتا ہے۔جب خریداری مکمل طور پر ادھار پر ہو یا کچھ رقم ادھار ہو تو بیچنے والے کو رقم ملنے سے قبل چیز روکنے کا اختیار بھی نہیں ہوتا ۔لہذا پوچھی گئی صورت میں جب زید ،بکر سے مذکورہ گھر خرید لے گا، باہمی ایجاب و قبول ہوجائے گا ، تو زید گھر کا مالک ہوجائے گا ، گھر پر قبضہ کرنے کے بعد وہ اس گھر کو کرایہ پر دے سکتا ہے ، اگرچہ کہ اس خریداری میں قیمت قسط وار ادا کرنا طے پایا ہو ۔
انعقادِبیع کے متعلق بنایہ میں ہے:
’’البیع ینعقد بالایجاب و القبول‘‘
یعنی:بیع ایجاب و قبول کے ذریعے منعقد ہو جاتی ہے۔(بنایہ،جلد7،صفحہ8،مطبوعہ دارالفکر بیروت)
بیع کا حکم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الفقہاء میں ہے:
”واما حکم البیع فھو ثبوت الملک فی المبیع للمشتری وثبوت الملک فی الثمن للبائع“
یعنی:بیع کا حکم یہ ہے کہ خریدی گئی چیز کا مالک خریدا ر ہو جائے اور قیمت کا مالک فروخت کنندہ ہو۔(تحفۃ الفقھاء، جلد2، صفحہ37، مطبوعہ بیروت)
قسطوں کی صورت میں بیع کرنے سے بھی بیع درست ہوتی ہے،چنانچہ اس کے متعلق مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:
’’البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح ، یلزم ان تکون المدۃ معلومۃ فی البیع بالتاجیل والتقسیط“
یعنی:ثمن ادھار ہونے اور قسطیں مقرر کرنے کے ساتھ بیع صحیح ہے اور ادھار یا قسطوں میں بیچنے کی صورت میں مدت معلوم ہونا ضروری ہے۔(مجلۃ الاحکام العدلیۃ، صفحہ50، مطبوعہ کراچی)
اجارے کی شرائط کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ومنھا الملک والولایۃ فلا تنفذ اجارۃ الفضولی لعدم الملک والولایۃ‘‘
ترجمہ:اجارے کی شرائط میں سے ایک شرط ملک اور ولایت ہے ،پس فضولی کا اجارہ کرنا ملک اور ولایت نہ ہونے کی وجہ سے نافذ نہیں ہوگا۔(فتاوی عالمگیری،جلد 4، صفحہ461، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
بیع کا حکم بیان کرتےہوئے بہار شریعت میں ہے:”بیع کا حکم یہ ہے کہ مشتری مبیع کا مالک ہو جائے اور بائع ثمن کا۔“(بہارشریعت، جلد2، حصہ11، صفحہ617،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC--458
تاریخ اجراء:29رجب المرجب1446ھ/29جنوری2025ء