
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس زمین تو ہے، لیکن پانی حاصل کرنے کے لیے سولر سسٹم موجود نہیں ہے۔ اب میرا اس شخص کو سولر پلیٹیں کرایہ پر دینا کیسا ہے؟نیز یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ کرایہ میں رقم کے بجائے سالانہ 10 من گندم اور 10 من کپاس طے کروں تو اس طرح اجرت طے کرنا درست ہے؟
مزید یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ اگرمیں اُسے یہ آفر دوں کہ سال بھر بعد اگر وہ مجھ سے سولر پلیٹیں خریدنا چاہے تو اُس وقت کی موجودہ قیمت پر میں اُسے سولر پلیٹیں فروخت کردوں گا۔ اس آفر دینے میں بھی شرعاً کوئی حرج والی بات تو نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کا اپنی سولر پلیٹوں کوفروخت کرنا یا انہیں کرایہ پر دینا، شرعاً جائز ہے، یونہی کرایہ میں رقم طے کرنے کے بجائے 10 من گندم اور 10 من کپاس طے کرنا بھی جائز ہے، جبکہ گندم اور کپاس میں کسی قسم کی جہالت نہ پائی جائے یعنی گندم اور کپاس کے بارے میں ضروری اوصاف بیان کردیئے جائیں۔
رہی بات آپ کی کرائے دار کو آخر میں بیچنے کی آفر دینے کی تو یہ اگر آفر ہی کی حد تک ہو اور عقدِ اجارہ میں مشروط نہ ہو تو اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں، پھر بعد میں آپ کا باہمی رضامندی سے مارکیٹ ویلیو پر وہ پلیٹیں فروخت کرنا شرعاً جائز ہے۔
اجرت میں رقم کے بجائے مکیلی، موزونی چیز بھی مقرر کی جاسکتی ہے جبکہ اس کی مقدار ،صفت اور ادائیگی کی جگہ سب معلوم ہو۔جیسا کہ درمختار میں ہے:
”وشرطھا:کون الاجرۃ والمنفعۃ معلومتین لان جھالتھماتفضی الی المنازعۃ“
یعنی: اجارے کی شرائط میں سے ہے کہ اجرت اور منفعت دونوں معلوم ہوں اس لیے کہ ان کی جہالت جھگڑے کی طرف لے جاتی ہے۔
(کون الاجرۃ والمنفعۃ معلومتین) کے تحت علامی شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’ فلو کانت کیلیا او وزنیا او عددیا متقاربا فالشرط بیان القدر والصفۃ، وکذا مکان الایفاء لو لہ حمل ومؤ نۃ عندہ ، والا فلا یحتاج الیہ‘‘
یعنی:اگر اجرت میں دی جانے والی چیز کیلی یا وزنی یا عددی متقارب ہو تو اس میں شرط یہ کہ مقدار اور صفت بیان کر دی ہوں۔اسی طرح اس چیز کی ادائیگی کا مقام بھی معلوم ہونا ضروری ہے جبکہ اس کو اٹھانے اور خرچ کرنے کی ضرورت ہو، یہ امام اعظم کے نزدیک ہے اوراگر ضرورت نہ ہو تو ادائیگی کے مقام کو بیان کرنے کی حاجت نہیں۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد09، صفحہ09، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے:’’جو چیز بیع کا ثمن ہوسکتی ہے و ہ اُجرت بھی ہوسکتی ہے مگر یہ ضرورنہیں کہ جو اُجرت ہوسکے وہ ثمن بھی ہوجائے۔“(بہار شریعت،جلد03، حصہ 14، صفحہ 108، مکتبۃ المدینہ کراچی)
عقدِ بیع میں دوسرا عقد مشروط نہ ہو تو بعد میں وہ عقد کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ شریف میں امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:” اگرعقد بیع میں یہ شرط نہ تھی، عقد صحیح بروجہ شرعی خالی عن الشروط الفاسدہ تھا ،نہ پہلے سے باہم یہ قرارداد ہوکر اسی بناء پر وہ بیع ہوسکتی تو بیع جائز ہے اور بائع کا بعد بیع اس میں مشتری سے کرایہ ٹھہراکرکرایہ پر رہنا اورمشتری کو ماہوار مقررشدہ دینا جائز ہے۔“(فتاوٰی رضویہ ، جلد 17،صفحہ 173، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-629
تاریخ اجراء:16ذوالحجۃ الحرام1446ھ/13جون 25 20ء