
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے ایک شخص کو انویسٹمنٹ کے لیے 5لاکھ روپے دیے ، اور اس نے ہم سے طے کیاکہ وہ 5 لاکھ روپے کا 8 سے 12 فیصد تک ہر ماہ بطور منافع دینے کا پابند ہوگا۔ نیز یہ بھی طے کیاکہ کسی بھی نقصان کی صورت میں فریق اول انویسٹر کو نقصان کے بعد 90 دن کے اندر انویسٹ کی گئی مکمل رقم دینے کا پابند ہوگا۔نیز یہ بھی طے کیاکہ فریق اول انویسٹر کو 24 سے 28 ماہ کے عرصے میں اصل رقم کا 180% سے 200%تک منافع دینے کا پابند ہوگا۔ان شرائط کے ساتھ ہم نے یہ رقم اس کو دیدی ،لیکن کسی نے ہماری توجہ دلائی کہ اس طریقہ سے کام کی شرعی رہنمائی لے لو، یہ طریقہ درست نہیں ۔ لہذا آپ یہ رہنمائی فرمادیں کہ اس طریقہ کارمیں کوئی شرعی خرابی ہے یانہیں ؟
نوٹ:سائل نے بتایاکہ ہم نے یہ کام شروع کردیاتھالیکن کسی کے توجہ دلانے پر ہم نے فی الحال یہ کام موقوف کر دیاہے ، رہنمائی اس لیے لے رہے ہیں تاکہ اس طرح کاکام کرنے کاحکم تحریری صورت میں آجائے اور آئندہ اس طرح کی غلطیاں ہم سے نہ ہوں اور دیگر افراد کی بھی اس فتوی کی روشنی میں اصلاح کی جائے ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص کا انویسٹمنٹ لینے اور اس پر منافع دینے کا طریقہ شراکت داری (partnership) نہیں بلکہ خالص سودی طریقے پر مشتمل ہے لہذا ان شرائط کے ساتھ مذکورہ کمپنی میں انویسٹمنٹ کرنا اور اس سے پرافٹ حاصل کرنا، ناجائز و حرام ہے۔ فریقین پر لازم ہے کہ فورا اس سودی معاہدے (Interest Based Contract) کو ختم کریں اور اللہ پاک کی بارگاہ میں سچی تو بہ کریں اور اب تک نفع کی مد میں جو رقم حاصل کی ہے، انویسٹر پر لازم ہے کہ وہ رقم بلانیت ثواب کسی شرعی فقیر کو صدقہ کردے بلکہ بہتر ہے کہ فریق اول کو واپس کردے۔
مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سوال میں ذکر کی گئی تفصیلات کے مطابق جب یہ بات طے ہے کہ انویسٹر کو ایک مخصوص مدت کے بعد اس کی اصل رقم مکمل واپس مل جائے گی تو اس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ رقم بطور شرکت نہیں دی جارہی بلکہ بطور قرض دی جارہی ہے کیونکہ کسی کو کوئی چیز اس لیے دینا کہ بعد میں وہ اس کی مثل واپس کرے،’’قرض“ کہلاتا ہے، اسی قرض کی وجہ سے فریق اول انویسٹر کو ہر ماہ پروفٹ دے رہا ہے حالانکہ قرض پر ملنے والا مشروط نفع سود ہوتا ہے اور سود کا لین دین کرنا حرام و سخت گناہ ہے۔
نیز بالفرض اس کو کاروباری شراکت مان بھی لیا جائے تو نفع دینے کا جو طریقہ کار مقرر کیا گیا ہے وہ بھی شرکت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ شرکت میں ہر فریق کا نفع فیصد کے اعتبار سے طے ہونا ضروری ہے ورنہ شرکت فاسد قرار پاتی ہے۔
قرض کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
’’شرعاً: ما تعطيه من مثلى لتتقاضاه۔‘‘
یعنی : کسی شے کو اس غرض سے دینا کہ واپس اسی کی مثل حاصل کیا جاسکے شرعی اعتبار سے قرض کہلاتا ہے۔(درمختار،جلد07،صفحه406،مطبوعہ کوئٹہ)
قرض پر مشروط نفع سود ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے:
’’كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا ‘‘
یعنی:ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل کیا جائے وہ سود کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔(السنن الكبرى للبيهقى ،جلد5،صفحه 573،مطبوعه بيروت)
سود کے متعلق صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه‘‘، وقال:’’هم سواء۔‘‘
یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کی تحریر لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب برابر کے شریک ہیں۔(صحيح مسلم،جلد 3، صفحه1219،مطبوعه بيروت)
شرکت کی شرائط ذکر کرتے ہوئے بدائع الصنائع میں ہے:
’’(ومنھا):ان يكون الربح معلوم القدر، فان كان مجهولا تفسد الشركة‘‘
یعنی:ان میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ نفع کی مقدار معلوم ہو، اگر نفع کی مقدار مجہول ہو تو شرکت فاسد ہوگی۔(بدائع الصنائع،جلد06،صفحه59،مطبوعہ بيروت)
سیدی اعلی حضرت،امام اہلسنت ، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے ایک سوال ہوا جس کے الفاظ یہ ہیں”اس وقت زید سے بکر نے کہا کہ اگر اس وقت پندرہ سو روپے دو تو میں لے لوں اور تجارت میں لگادوں اور چار سال میں اگر روپیہ ادا ہوا تو منافع لوں گا“تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:”صورت مستفسرہ میں وہ منافع قطعی سود اور حرام ہیں حدیث میں ہے:
”کل قرض جرمنفعۃ فھو ربا“
قرض سے جو نفع حاصل کیا جائے وہ سو دہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ 561،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور)
اسی طرح کی ایک کمپنی میں انویسٹمنٹ کے متعلق امام اہلسنت سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ:”شرکت کا مقتضٰی یہ ہے جیسے نفع میں سب شریک ہوتے ہیں نقصان ہو تو وہ بھی سب پر ہر ایک کی مال کی قدر پڑے۔۔۔۔ یہاں اگر نقصان ہوا جب بھی ان حصہ داروں کو اس سے غرض نہ ہوگی وہ اپنے ہزار روپے لے چھوڑیں گے، یہ شرکت ہوئی یا غصب، اصل مقتضاء شرکت عدل و مساوات ہے۔۔۔بہرحال یہاں نہیں مگر صورت قرض، اور اس پر نفع مقرر کیا گیا،یہی سود ہے اور یہی جاہلیت میں تھا۔“(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ 272-273،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور، ملتقطا )
امام اہلسنت اعلی حضرت رحمۃاللہ علیہ فتاوی رضویہ شریف میں سود اور دیگر مال حرام سے براءت حاصل کرنے سے متعلق فرماتے ہیں: ” جو مال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل کیا اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں۔ یہی حکم سود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدق کردے،۔۔۔۔ ہاں جس سے لیا انہیں یا ان کے ورثہ کو دینا یہاں بھی اولی ہے۔‘‘(فتاوى رضويه،جلد23، صفحہ551، مطبوعہ رضا فاؤنڈيشن لاهور، ملتقطا )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-0276
تاریخ اجراء:22ذوالحجۃ الحرام 1445ھ29جون2024ء