چار سنتِ مؤکدہ میں تین پر سلام پھیر دیا تو نماز کا حکم

چار سنتِ مؤکدہ شروع کر کے تین پر سلام پھیر دیا تو قضا لازم ہے ؟

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے چار رکعت ظہر کی سنت شروع کی اور بھولے سے تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ بعد میں یاد آیا کہ تین پڑھی ہیں، لیکن اس نے تب اعادہ نہیں کیا، بلکہ فرائض اور بقیہ نماز ادا کرنے کے بعد گھر آ گیا، تو اب اس کے لئے کیا حکم ہے ؟ کیا اعادہ لازم ہو گا ؟ اگر ہو گا، تو کتنی رکعات کا ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں اولاً تو زید کے لئے حکمِ شرعی یہی تھا کہ سلام پھیرنے کے بعد کوئی منافی ِ نماز کام کرنے (کسی سےبات چیت کرنے، مسجد سے باہر نکل جانے یا کوئی چیز کھانے پینے وغیرہ) سے پہلے یاد آ جانے کی صورت میں  کھڑے ہو کر چوتھی رکعت ادا کرتا اور آخر میں سجدۂ سہو کر کے نماز کو مکمل کر لیتا، لیکن جب ایسا نہیں کیا اور کوئی منافیِ نماز کام کر لیا، تو ایسی صورت میں یہ نماز فاسد ہو گئی۔ اب زید پر لازم ہے کہ اس نماز کی قضا کرے اور چونکہ یہ چاروں رکعات، نمازِ واحد کی طرح ہیں، ان میں نفل کی طرح ہر شفع کا الگ سے اعتبار نہیں ہوتا، لہٰذاقضا کرنے میں چار رکعات ادا کرنا ہی ضروری ہو گا۔

 چار رکعت والی نماز میں بھول کر تیسری رکعت پر سلام پھیر لینے کے متعلق نور الایضاح میں ہے:

”مصل رباعية أو ثلاثية أنه أتمها فسلم ثم علم أنه صلى ركعتين أتمها وسجد للسهو“

ترجمہ: چار رکعت یا تین رکعت پڑھنے والے شخص نے یہ گمان کرتے ہوئے سلام پھیر دیا کہ اس نے نماز مکمل کر لی ہے، پھر اسے یاد آیا کہ اس نے دو (یا تین) رکعات پڑھی ہیں، تو یہ اپنی نماز مکمل کرےاور سجدۂ سہو کر لے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ 182، مطبوعہ المکتبۃ العصریہ، بیروت )

اس عبارت کے الفاظ ”فسلم ثم علم“ کے تحت مراقی الفلاح میں ہے: ”قبل إتيانه بمناف“ ترجمہ: کسی منافی نماز کام کے ارتکاب سے پہلے۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ 182، مطبوعہ المکتبۃ العصریہ، بیروت )

یونہی فتح باب العنایہ میں ہے:

”ولو توهم المصلي أنه أتم صلاته فسلم بناء على توهمه، ثم علم أنه صلى ركعتين فقط، أتمها في مكانه، وسجد للسهو“

ترجمہ: اگر نماز پڑھنے والے شخص کو یہ گمان ہوا کہ اس نے  اپنی نماز مکمل کر لی ہے اور اسی گمان پر اس نے سلام پھیر دیا، پھر اس کو پتا چلا کہ اس نے محض دو رکعتیں (یا جتنی رکعات پڑھنی تھیں، اس سے کچھ کم ) پڑھی ہیں، تو اسی جگہ پر اس نماز کو مکمل کرے اور سجدۂ سہو کرلے۔ (فتح باب العنایہ، جلد 1، صفحہ 372، مطبوعہ  دار الارقم، بیروت )

ظہر کی چار کعت سنتِ قبلیہ نمازِ واحد کی طرح ہیں، چنانچہ بحرالرائق میں ہے:

السنة الرباعية المؤكدة كسنة الظهر۔۔۔هي صلاة واحدة ولهذا لا يستفتح في الشفع الثاني ولا يصلي في القعدة الأولى“

 ترجمہ: چار رکعت سنتِ مؤکدہ، جیسے کہ ظہر کی سنتیں۔۔۔یہ ایک ہی نماز ہیں اسی لیے شفعِ ثانی میں ثناء نہیں پڑھی جاتی نہ ہی قعدۂ اولی میں درودِ پاک پڑھا جاتا ہے۔ (بحرالرائق، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، جلد02، صفحہ99، مطبوعہ پشاور )

یونہی فتاوی رضویہ شریف میں ہے: ”مصلی ایں دوسنت ہر چہار رکعت اتمام کند اگرچہ ہنوز تحریمہ بسة است کہ جماعت ظہر یا خطبہ جمعہ آغاز نہادند زیرا کہ ایں ہمہ رکعات ہمچو نماز واحد ست لہذا در قعدہ اولی درود نہ خواند نہ در شروع ثالثہ ثنا و تعوذ“ ترجمہ: ان سنتوں کو ادا کرنے والا شخص تمام چار رکعات کو پورا کر لے، اگرچہ اس نے ابھی تحریمہ (تکبیر تحریمہ) ہی کہی ہو کہ جماعتِ ظہر یا جمعہ کا خطبہ شروع ہو گیا ہو، اس لیے کہ یہ تمام رکعات ایک ہی نماز کی مانند ہیں، لہذا پہلے قعدہ میں دُرود نہیں پڑھا جائے گا اور نہ ہی تیسری رکعت شروع کرتے وقت ثنا اور تعوذ (اعوذ باللہ) پڑھا جائے گا۔ (فتاوی رضویہ، جلد08، صفحہ132، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

چار رکعت سنتِ مؤکدہ فاسد ہونے کی صورت میں چار رکعت ہی قضا کرنا ضروری ہے، چنانچہ در مختار ميں ہے:

”(وقضى ركعتين لو نوى أربعا) غير مؤكدة على اختيار الحلبي وغيره“

ترجمہ: اور (نفل شروع کر کے توڑنے کی صورت میں) دو رکعت کی قضا کرنی ہو گی، اگرچہ چار کی نیت کی ہو، علاوہ سنتِ مؤکدہ کے (کہ) امامِ حلبی اور دیگر کے موقف کے مطابق (ان میں چار رکعت کی قضا کرنی ہو گی)۔

اس کے تحت فتاوی شامی میں ہے:

”قال في شرح المنية: أما إذا شرع في الأربع التي قبل الظهر وقبل الجمعة أو بعدها ثم قطع في الشفع الأول أو الثاني يلزمه قضاء الأربع باتفاق لأنها لم تشرع إلا بتسليمة واحدة۔۔۔فهي بمنزلة صلاة واحدة“

 ترجمہ: شرحِ منیہ میں (امامِ حلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے) فرمایا: جب ظہر کی چار سنتِ قبلیہ یا جمعہ کی قبلیہ یا بعدیہ چار رکعت سنتیں شروع کر نے کے بعد ان کو پہلے خواہ دوسرے شفع میں توڑ دیا، تو بالاتفاق چار رکعت کی قضاء لازم ہو گی، کیونکہ یہ ایک سلام کے ساتھ ہی مشروع ہیں۔۔۔ تو یہ نمازِ واحد کے قائم مقام ہیں۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 578، مطبوعہ کوئٹہ )

بہارِ شریعت میں ہے: سنت مؤکدہ اور منت کی نماز اگر چار رکعتی ہو تو توڑنے سے چار کی قضا دے۔ (بہارِ شریعت، جلد 1، صفحہ 669، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری  

فتوی نمبر : FSD-9625

تاریخ اجراء : 21  جمادی الاولیٰ 1447 ھ/13 نومبر 2025 ء