نماز عید سے پہلے نوافل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟

نماز عید سے پہلے نوافل پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ نمازِ عید  سے پہلے اور عیدکی نماز کے بعد نفل پڑھنا شرعاً مکروہ عمل ہے؟اگر ایسا ہی ہے،تو اس مکروہ سے کیا مراد ہے،مکروہِ تحریمی یا  مکروہِ تنزیہی؟ رہنمائی  فرما دیں ۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نمازِ عید خواہ عید الفطر ہو یاعید الاضحیٰ اس سے پہلےمطلقاً (یعنی گھر،مسجد اور عید گاہ میں مرد و عورت دونوں کےلیے)اور نمازِ عید کے بعد مسجد اور عیدگاہ میں نفل  نماز پڑھنا  مکروہِ تنزیہی،شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔

مزیدتفصیل یہ ہے کہ  اَئمہ  احناف کے نزدیک نماز ِعید سے پہلے نفل نماز ادا کرنا مطلقا ًمکروہ ہے،خواہ گھرمیں ہو،یا مسجد  یا عید گاہ میں،یہاں تک کہ اگر عورت اشراق و چاشت،وغیرہ کوئی نفل نماز ادا کرنا  چاہے،تو امام کے  نمازِ عید پڑھا لینے کے بعد ادا کرے، چنانچہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نوافل کی کثرت اور ان کی حرص و رغبت کے باوجودعید سے پہلے کوئی نفل نماز ادا نہ فرماتے تھے۔جہاں تک نمازِ عید کے بعد نفل پڑھنے کا تعلق ہے،تو نمازِعید کے بعد عید گاہ اور مسجد میں نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے  اور اس مکروہ سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے،جیساکہ علامہ شامی وغیرہ نے تصریح کی ہے،البتہ گھر میں نفل نمازپڑھنے کی اجازت ہے، کیونکہ رسول اللہ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام نمازِ عید کے بعد عیدگاہ میں نفل ادا نہ فرماتے  اور کاشانۂ اقدس میں واپس تشریف لاکر دو رکعت پڑھاکرتے تھے۔

یہ بھی یادرہےکہ!یہ ممانعت کاحکم خواص کےلیے ہے،تاہم اگر عوام پڑھے،تو اس کو منع نہ کیا جائے، جیساکہ مولیٰ المسلمین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ  کَرَّمَ  اللہُ  تَعَالیٰ وَجْھَہٗ الْکَرِیْم نے ایک شخص  کو نمازِ عید کے بعد نفل  پڑھتے ہوئے دیکھا،تو اس کو منع نہ فرمایا  اور آپ کا منع نہ فرمانا اس کے مکروہِ تنزیہی ہونے کی دلیل ہے،اس لیے کہ اگر یہ مکروہ تحریمی ہوتا ،تو حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُاس عمل کو برقرار نہ رکھتے، کیونکہ کسی ناجائز عمل کو برقرار رکھناجائز نہیں ہے۔

نماز عیدسے پہلے نفل نماز پڑھنے کے متعلق صحیح بخاری شریف میں ہے:

عن ابن عباس كره الصلاة قبل العید“

ترجمہ:حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ   عید کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ (صحیح البخاری، ابواب  العیدین، جلد2،صفحہ24،مطبوعہ دار طوق النجاة)

اس روایت کے تحت علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:

(قبل العيد) يدل على ان المراد منع التنفل مطلقا

ترجمہ: عید سے پہلے  نفل پڑھنا  مکروہ  ہونا  اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عید سے پہلے مطلقاً نفل نماز  منع ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد20، صفحہ240، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)

یونہی صحیح بخاری و صحیح مسلم اور ديگر کتبِ صِحاح  میں اِنہی سے مرفوعاً روایت ہے،چنانچہ امام ابن ماجہ قزوینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:273ھ) اپنے مجموعۂ احادیث ”سننِ ابنِ ماجہ“میں نقل کرتے ہیں:

عن ابن عباس،أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ‌خرج ‌فصلى ‌بهم العيد،لم يصل قبلها ولا بعدها

ترجمہ: حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز کےلیے عید گاہ کی طرف نکلے اور لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی ،لیکن آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہ نمازِ عید سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ ہی بعد میں کوئی نماز ادا فرمائی۔ (سنن ابن ماجه، صفحہ 201، مطبوعہ  لاھور)

حدیث پاک میں نمازِ عید کےبعد کی نفی کے متعلق تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 1014 ھ / 1605ء) لکھتے ہیں:

”قال ابن الهمام:هذا النفي محمول على المصلى لخبر أبي سعيد الخدري: كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم  لا يصلي قبل العيد شيئا،فإذا رجع إلى منزله صلى ركعتين

ترجمہ:امام ابن ہمام عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا : عید کے بعد نفل نہ پڑھنا عیدگاہ میں نہ پڑھنے پر محمول ہے،کیونکہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عید سے پہلے کوئی نفل نماز نہیں پڑھتے تھےاور جب اپنے کاشانۂ اقدس میں واپس تشریف لاتے تو دو رکعت ادا فرماتےتھے۔ (مرقاة المفاتيح ،جلد 3، صفحہ1063، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)

گھر میں واپس آکر نفل پڑھنے کی روایت سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ اور دیگر کتبِ احادیث میں بھی موجود ہے، جیساکہ شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور دیگر شارحینِ حدیث نے بھی لکھا،اس لیے  جن  روایات میں نماز کے بعد کی بھی نفی مذکورہے ، ان سے عیدگاہ اور مسجد کی نفی ہی مراد ہے۔

علامہ زَیْلَعی نفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:743ھ/1342ء) لکھتےہیں:

وقوله:ومتنفل،ای:غيرِ متنفلٍ وهو مكروه في المصلى قبل صلاةالعيداتفاقاواختلفوا في البيت قبل الصلاة وبعدها في المصلى وعامتهم على الكراهة قبل الصلاة مطلقا وبعدها في المصلى لما روي  انه عليه الصلاة والسلام خرج يوم الاضحى فصلى ركعتينِ ولم يصلِ قبلهماولا بعدهما“

ترجمہ:اور ماتن کاقول ’’و متنفل‘‘ یعنی نمازِعید کے لیے عید گاہ میں   جانے سے پہلے نفل نہ پڑھے،کیونکہ نماز عید سے پہلےعید گاہ میں نفل پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہےاور اس بارے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ نماز ِعید سے پہلے گھر میں اور عید کے بعد  عید گاہ میں بھی منع ہے یا نہیں  ؟اکثر فقہائےکرام کا مؤقف یہ ہے کہ عید سے پہلے مطلقا ًنفل مکروہ ہے  اور نمازِعید کے بعد عید گاہ میں مکروہ ہے ،کیونکہ حدیث پاک میں یہ بات مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عید الاضحیٰ کے دن نکلے،تو  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  عید کی دو رکعتیں پڑھائیں اور اس سے پہلے اور بعدمیں کوئی نماز  نہیں پڑھی ۔(تبیین الحقائق، جلد1، صفحہ 224،مطبوعہ المطبعۃ الکبری ، القاھرۃ )

اور اس کراہت سے کراہتِ تنزیہی مراد ہونے کے متعلق تنویر الابصار و درمختار میں ہے:

”(ولا يتنفل قبلها مطلقا)…وفي التنفل سواء كان في المصلى اتفاقا أو في البيت في الأصح، وسواء كان ممن يصلي العيد أو لا حتى إن المرأة إذا أرادت صلاة الضحى يوم العيد تصليها بعدما يصلي الامام في الجبانة(وكذا)لا يتنفل(بعدها في مصلاها)فإنه مكروه عند العامة(وإن) تنفل بعدها(في البيت جاز) وھذا للخواص ، اما العوام فلا یمنعون من تکبیر  ولا تنفل اصلا لقلۃ رغبتھم  فی الخیرات، بحر …لان علیا  رضی اللہ عنہ  رای رجلا یصلی بعد العید ،فقیل : اما تمنعہ یا امیر المؤمنین؟ فقال:اخاف ان ادخل تحت الوعید،قال اللہ تعالی: (ارایت الذی ینھی ،عبدا اذا صلی)

(وفی رد المحتار) وظاهر هذا الأثر تقرر الكراهة عندهم في المصلي وأنها تنزيهية وإلا لما أقره  اذ لا يجوز الاقرار على المنكر “

ترجمہ: عید کی نماز سے پہلے  مطلقاً نماز  نہیں ہے،چاہے عيد  گاہ میں پڑھے یا  گھر میں   اور اس پر عید کی نماز ضروری ہو یا نہ ہو،یہاں تک کہ  عید کے دن اگر عورت چاشت کی نماز  پڑھنا چاہے، تو اس وقت نماز پڑھے جب امام  عید گاہ میں نماز پڑھ چکا  ہو،اِسی طرح نمازِ عید کے بعدبھی  عید گاہ میں نفل پڑھنا اکثر فقہائے کرام کے نزدیک مکروہ ہے   اور اگر نمازِ عید  کے بعد گھر میں نفل پڑھے، تو بلا کراہت جائز ہے۔ اور یہ ممانعت کاحکم خواص کے لیے ہے، عوام پڑھے تو اس کو منع نہ کیا جائے کہ نیکی کے کاموں میں ان کی رغبت پہلے ہی کم ہے،(اس کی دلیل یہ ہےکہ )مولیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنے ایک شخص کو عید گاہ میں نماز عید کے بعد نفل پڑھتے ہوئے دیکھا ،توکہا گیا اے امیر المؤمنین!آپ منع نہیں فرمائیں گے؟توفرمایا:مجھے خوف ہے کہ میں کہیں قرآن میں بیان کردہ اس وعید ﴿ اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یَنْهٰىۙ(۹) عَبْدًا اِذَا صَلّٰى ﴾کے تحت داخل نہ  ہوجاؤں۔(اس پر  علامہ شامی نے لکھا:) مولیٰ علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے اثر کے ظاہر سے عید گاہ میں نماز  ادا کرنے کی کراہت اور اس مکروہ سے مکروہِ تنزیہی مراد ہونا ثابت ہوتاہے،ورنہ  مولیٰ علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُاس عمل کو برقرار نہ رکھتے، اس لئے  کہ   کسی ناجائز عمل کو برقرار رکھناجائز نہیں ہے۔ (تنویر الابصار مع ردالمحتار،ملخصاً،جلد2،صفحہ 183 ، 186،مطبوعہ دار الفكربيروت)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:
”نمازِعیدین سے پیشتر نفل مکروہ ہے، خواہ گھر میں پڑھے يا عید گاہ و مسجد میں نما زعیدین کے بعدنفل مکروہ ہے، جب کہ عید گاہ یا مسجد میں پڑھے، گھرمیں پڑھنا مکروہ نہیں۔“
(بھار شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ457،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اور یہ احکام،خواص کے لیے  ہیں،تاہم اگر عوام پڑھے،تو اسے منع نہ کیا جائے،چنانچہ ایک اور مقام پر صدرالشریعہ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں:” نماز عید سے قبل نفل نماز مطلقاً مکروہ ہے، عیدگاہ میں ہو یا گھر میں اس پر عید کی نماز واجب ہو یا نہیں، یہاں تک کہ عورت اگر چاشت کی نماز گھر میں پڑھنا چاہے،تو نماز ہو جانے کے بعد پڑھے اور نماز عید کے بعد عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے ، گھر میں پڑھ سکتا ہے،بلکہ مستحب ہے کہ چار رکعتیں پڑھے،یہ احکام خواص کے ہیں،عوام اگر نفل پڑھیں اگرچہ نماز عید سے پہلے اگرچہ عیدگاہ میں ،انہيں منع نہ کیا جائے۔ (بھار شریعت، جلد2، حصہ4، صفحہ781،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  Fsd-9304

تاریخ اجراء: 28رمضان المبارک1446ھ/29 مارچ  2025ء