سفر میں آیت سجدہ دہرانے پر کتنے سجدے واجب ہونگے؟

سفر کے دوران ایک آیتِ سجدہ بار بار پڑھنے سے کتنے سجدے لازم ہوں گے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں حافظِ قرآن ہوں،الحمد للہ میری روٹین ہے کہ میں ڈیوٹی وغیرہ پر جاتے آتے، دورانِ سفر بھی قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا رہتا ہوں، اگر میں دورانِ سفر ایک آیتِ سجدہ بار بار پڑھوں، تو کیا ہر مرتبہ الگ سجدہ تلاوت واجب ہو گا؟ میرا عمومی سفر اپنی بائیک پر ہوتا ہے، البتہ بسا اوقات لوکل گاڑی پر بھی سفر کرلیتا ہوں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بائیک چلاتے ہوئے ایک ہی آیتِ سجدہ کی تکرار کی، تو ہر بار الگ سجدہ تلاوت واجب ہو گا، البتہ لوکل گاڑی میں دورانِ سفر ایک آیتِ سجدہ کے تکرار سے ایک ہی سجدہ تلاوت واجب ہو گا۔ اس مسئلہ کی تفصیل جاننے سے قبل چند باتیں بطورِ تمہید سمجھ لینا ضروری ہے اور وہ یہ ہیں:

اگر ایک مجلس میں ایک ہی آیتِ سجدہ کی تکرار کی جائے، تو آسانی کے پیشِ نظر شریعتِ مطہرہ نے حکم یہ دیا کہ ایک ہی سجدہ تلاوت واجب ہوگا۔ البتہ اگر آیتِ سجدہ یا مجلس تبدیل ہو جائے،تو اب ہر بار الگ سجدہ تلاوت واجب ہو گا۔

پھر مجلس تبدیل ہونے کے مختلف اسباب ہیں، مسافر کی سواری تبدیل ہونے سے بھی کبھی مجلس بدل جاتی ہے۔ اب اس کی وجہ سے کب مجلس بدلے گی اور کب نہیں؟ تو اس بارے میں فقہاء نے جو کلام فرمایا ہے، اس کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ اگر سواری کو روکنا مسافر کی قدرت میں ہو، تو سواری کے چلنے سے مجلس بدل جائے گی، اگرچہ وہ سواری کوئی بھی ہو اور اگر سواری کو روکنا مسافر کی قدرت میں نہیں، تو فقط سوار ی کے چلنے سے مجلس تبدیل نہیں ہو گی (ہاں اس صورت میں بھی اگر مجلس کو تبدیل کرنے والی کوئی اور چیز پائی گئی، تو اس کی وجہ سے مجلس بدل جائے گی)۔ وجہِ فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں سواری کو روکنے پر قدرت ہونے کی وجہ سے اس کے چلنے کو مسافر کا چلنا قرار دیا جائے گا، جبکہ دوسری صورت میں سواری کو روکنے پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے چلنے کو مسافر کا چلنا نہیں کہا جائے گا۔

اب مذکورہ تفصیل کے مطابق دیکھا جائے، توجب خود بائیک یا گاڑی چلا رہے ہوں، تو اسے روکنا انسان کی قدرت میں ہوتا ہے، لہذا ان کے چلنے سے مجلس بدل جائے گی اور ہر بار الگ سجدہ تلاوت واجب ہو گا، لیکن لوکل گاڑی کا معاملہ اس سے جدا ہے،کیونکہ عموماً ڈرائیور مسافروں کے مطیع نہیں ہوتے،یعنی ہر جگہ مسافروں کے کہنے پر گاڑی روکنے کے پابند نہیں ہوتے، لہٰذا ان کے چلنے سے مجلس نہیں بدلے گی اور ایک آیتِ سجدہ کی تکرار سے فقط ایک ہی سجدہ واجب ہو گا، البتہ اگر ڈرائیور مسافروں کا مطیع ہو، یعنی کسی بھی جگہ اس کے کہنے پر گاڑی روکنے کا پابند ہو، جیسے عموماً بُکنگ والی گاڑی میں ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں گاڑی کے چلنے سے مجلس تبدیل ہو جائے گی۔

مجلسِ واحد میں آیتِ سجدہ کی تکرار سے ایک ہی سجدہ واجب ہو گا، لیکن مجلس یا آیتِ سجدہ بدلنے سے ہر بار سجدہ واجب ہو گا۔ چنانچہ ملتقی الابحر اور اس کی شرح مجمع الانہر میں ہے:

’’(و لو كرر ) تلاوة (آية واحدة)او سمعها من واحد او متعدد (فی مجلس واحد كفته سجدة واحدة و ان بدلها)ای آية السجدة (او المجلس لا) ای لا تكفيه سجدة واحدة‘‘

ترجمہ: اور اگر ایک مجلس میں ایک ہی آیتِ سجدہ کا تکرار کیا یا ایک یا چند لوگوں سے اسے سنا، تو اسے ایک ہی سجدہ کافی ہے اور اگر آیتِ سجدہ یا مجلس تبدیل کر دی، تو اسے ایک سجدہ کافی نہیں ہو گا۔ (ملتقی الابحر مع مجمع الانھر، ج 1، ص 158، مطبوعہ دار احياء التراث العربی)

اسی بارے میں بہار شریعت میں ہے: ’’ایک مجلس میں سجدہ کی ایک آیت کو بار بار پڑھا یا سنا،تو ایک ہی سجدہ واجب ہوگا، اگرچہ چند شخصوں سے سنا ہو۔ يوہيں اگر آیت پڑھی اور وہی آیت دوسرے سے سنی بھی، جب بھی ایک ہی سجدہ واجب ہوگا۔‘‘ (بھار شریعت، ج 1، ص 735، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

سواری کو روکنا ممکن ہو، تو اس کے چلنے سے مجلس بدل جائے گی، ورنہ نہیں، جیسے اس معاملہ میں فقہاء نے جانور اور پرانے زمانے کی ہوا کی مدد سے چلنے والی کشتی کی مثال دی اور فرمایا کہ جانور کو روکنا ممکن ہونے کی وجہ سے اس کے چلنے سے مجلس تبدیل ہو جائے گی اور کشتی کو ہر جگہ روکنا ممکن نہ ہونے کی وجہ سے مجلس تبدیل نہیں ہو گی۔ چنانچہ مبسوطِ سرخسی میں ہے:

’’و ان قرأها راكبا سائرا مرتين فان كان فی غير الصلاة فعليه سجدتان، لان سير الدابة مضاف اليه فانه يملك ايقافها متى شاء فكان نظير مشيه و هو يتبدل به المجلس، بخلاف راكب السفينة فان السفينة فی حقه كالبيت و هو لا يجريها بل هی تجری به‘‘

ترجمہ: اور اگر سوار ہونے کی حالت میں چلتے ہوئے دو مرتبہ آیتِ سجدہ پڑھی، پس اگر یہ معاملہ نماز کے علاوہ کا ہو، تو اس پر تلاوت کے دو سجدے واجب ہوں گے، اس لیے کہ جانور کا چلنا سوار کی جانب منسوب ہوتا ہے، کیونکہ سوار جب چاہے، اسے روکنے پر قادر ہوتا ہے،تو جانور کا چلنا سوار کے چلنے کی طرح ہوگا اور سوار کے چلنے سے مجلس تبدیل ہو جاتی ہے، برخلاف کشتی پر سواری کرنے والے کے،کیونکہ کشتی سوار کے حق میں گھر کی طرح ہے، سوار اس کو نہیں چلاتا، بلکہ کشتی اس کو لے کر چلتی ہے۔ (مبسوطِ سرخسی، ج 2، ص 14، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

اسی مسئلہ کی مزید تفصیل اور وجہ فرق بدائع الصنائع میں یوں بیان ہوئی:

’’و لو تلاها وهو يمشی لزمه لكل مرة سجدة لتبدل المكان۔۔ و لو قرأ آية السجدة مرارا وهو يسير على الدابة ان كان خارج الصلاة سجد لكل مرة سجدة على حدة بخلاف ما اذا قرأها فی السفينة وهی تجری حيث تكفيه واحدة (و الفرق) ان قوائم الدابة جعلت كرجليه حكما، لنفوذ تصرفه عليها فی السير و الوقوف فكان تبدل مكانها كتبدل مكانه، فحصلت القراءة فی مجالس مختلفة، فتعلقت بكل تلاوة سجدة، بخلاف السفينة فانها لم تجعل بمنزلة رجلی الراكب، لخروجها عن قبول تصرفه فی السير و الوقوف و لهذا اضيف سيرها اليها دون راكبها،قال اللہ تعالى:

﴿حَتّٰۤى اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِۚ-وَ جَرَیْنَ بِهِمْو قال: ﴿وَ هِیَ تَجْرِیْ بِهِمْ فِیْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ

فلم يجعل تبدل مكانها تبدل مكانه،بل مكانه ما استقر هو فيه من السفينة من حيث الحقيقة والحكم وذلك لم يتبدل، فكانت التلاوة متكررة فی مكان واحد فلم يجب لها الا سجدة واحدة كما فی البيت‘‘

ترجمہ:اور اگر چلتے ہوئے آیتِ سجدہ تلاوت کی،تو ہر مرتبہ کی تلاوت پر سجدہ تلاوت لازم ہو گا،کیونکہ مکان تبدیل ہو چکا ہے اور اگر جانور پر سوارہونے کی حالت میں بار بار آیتِ سجدہ پڑھی، پس اگر یہ تلاوت نماز کے علاوہ ہو،تو وہ ہر بار کے لیے الگ سجدہ کرے گا، برخلاف اس صورت میں کہ جب چلتی کشتی میں آیتِ سجدہ بار بار پڑھی، تو ایک ہی سجدہ کافی ہو گا۔ اور فرق یہ ہے کہ جانور کے پاؤں کو حکمی طور پر سوار شخص کے پاؤں کی منزلت میں رکھا جائے گا، کیونکہ جانور کے چلنے اور رکنے میں سوار کا تصرف جانور پر نافذ ہوتا ہے، تو جانور کی جگہ کا تبدیل ہونا سوار کی جگہ تبدیل ہونا شمار ہوگا، پس آیتِ سجدہ کی تلاوت مختلف مجالس میں پائی جائے گی، لہذا ہر مرتبہ کی تلاوت کے ساتھ سجدہ تلاوت کا حکم متعلق ہو گا۔ برخلاف کشتی کے، اسے سوار کے پاؤں کی طرح نہیں قرار دیا جائے گا، کیونکہ چلنے اور رکنے میں وہ سوار کے تصرف کو قبول نہیں کرتی، اسی وجہ سے کشتی کے چلنے کو کشتی ہی کی جانب منسوب کیا جاتا ہے، نہ کہ سوار کی جانب۔ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ (کشتیاں) خوشگوار ہوا کے ساتھ انہیں لے کر چلتی ہیں۔ اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے: اور وہ انہیں لیے جارہی ہے ایسی موجوں میں جیسے پہاڑ۔ پس کشتی کی جگہ کا تبدیل ہونا سوار کی جگہ کا تبدیل ہونا شمار نہیں ہوگا، بلکہ سوار کی جگہ وہ ہے جہاں وہ حقیقت اور حکم کے اعتبار سے کشتی میں ٹھہرا ہوا ہے اور وہ جگہ تبدیل نہیں ہوئی، پس تلاوت ایک ہی جگہ میں بار بار پائی جائے گی، لہذا ایک ہی سجدہ واجب ہو گا، جیسا کہ گھر میں بار بار آیتِ سجدہ تلاوت کرنے سے ایک ہی سجدہ واجب ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع، ج 1، ص 182، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’        کشتی میں ہے اور کشتی چل رہی ہے، مجلس نہ بدلے گی۔ ریل کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے، جانور پر سوار ہے اور وہ چل رہا ہے تو مجلس بدل رہی ہے، ہاں اگر سواری پر نماز پڑھ رہا ہے، تو نہ بدلے گی۔‘‘ (بھارِ شریعت، ج 1، ص 736، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

جانور بِدک جائے، تو اس کے چلنے سے مجلس تبدیل نہیں ہو گی، کہ اسے روکنا قدرت میں نہیں ہوتا۔ چنانچہ فتاوی شامی اور طوالع الانوار میں ہے:

’’قال الرحمتی وینبغی ان الدابۃ لو جمحت و عجزت عن ردھا ان تکون کا لسفینۃ، لان فعلھا حینئذ لا ینسب الی الراکب کما یاتی فی الجنایات‘‘

ترجمہ: رحمتی نے کہا کہ اور مناسب یہ ہے کہ بے شک جانور اگر سرکش ہو جائے اور اسے قابو کرنے سے عاجز ہو،تو اس کا معاملہ بھی کشتی کی طرح ہو، کیونکہ اس وقت جانور کا فعل سوار کی جانب منسوب نہیں ہو گا، جیسا کہ جنایات میں آئے گا۔ (فتاوی شامی، ج 3، ص 319، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

چھوٹی کشتیاں جن کو چپّو سے چلایا جاتا ہے، انہیں روکنا ممکن ہوتا ہے، لہذا ان کے چلنے سے مجلس تبدیل ہو جائے گی۔ چنانچہ طوالع الانوار میں ہے:

’’فینبغی فی الفلک الصغیر الذی یسیر بالمقادیف ان یکون کسیرۃ الدابۃ‘‘

ترجمہ: پس چھوٹی کشتی جو چپو کے ساتھ چلتی ہے، مناسب یہ ہے کہ اس کا چلنا جانور کے چلنے کی طرح ہو۔ (طوالع الانوار، مخطوطہ6.1 )

اسی بارے میں عمدۃ الرعایہ میں ہے:

’’و فی حکم الفلک المرکب الدخانی الذی یسیر بالمسافرین علی الارض‘‘

ترجمہ: اور کشتی کے حکم میں دھویں دار گاڑی بھی ہے، جو مسافروں کو لے کر سڑک پر چلتی ہے۔ (شرح وقایہ مع عمدۃ الرعایہ، ج 2، ص 90، مطبوعہ ملتان)

اسی طرح خریدوفروخت کے مسئلے میں بھی فقہاء نے مجلس بدلنے یا نہ بدلنے کی یہی تفصیل بیان کی ہے۔ چنانچہ کشتی اور ریل گاڑی کے بارے میں درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

’’و اذا كان المتبايعان فی سفينة او قطار فكما لو كانا فی غرفة وبعبارة اخرى اذا صدر القبول من احدهما متراخيا عن الايجاب، فالبيع ينعقد و سير السفينة و القطار لا يمنع من انعقاد البيع، لانه ليس فی استطاعة المتابعين ايقاف السفينة او القطار‘‘

ترجمہ: جب خرید وفروخت کرنے والے کشی یا ریل گاڑی میں ہوں، تو وہ ایسے ہی ہیں، جیسے کمرے میں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب ایک کی جانب سے دوسرے کے ایجاب کے کچھ دیر بعد قبول صادر ہو، تب بھی خرید و فروخت منعقد ہو جائے گی اور کشی اور ریل گاڑی کا چلنا خریدوفروخت منعقد ہونے سے مانع نہیں، کیونکہ کشتی یا ریل گاڑی کو روکنا سفر کرنے والوں کی قدرت میں نہیں ہوتا۔ (درر الحکام، شرح مجلۃ الاحکام، ج 1، ص 155، مطبوعہ دار الجیل)

کشتی، جہاز اور ریل گاڑی کے بارے میں الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

’’لو تبايع الطرفان على سفينة او طائرة او قطار، انعقد العقد، سواء كانت هذه الوسائل واقفة ام جارية، بخلاف المشی على الارض و السير على الدابة،لان الشخص لا يستطع ايقاف تلك الوسائل، فاعتبر المجلس فيها مجلساً واحداً و ان طال، اما الدابة، فانه يستطيع ايقافها‘‘

ترجمہ: اگر دو افراد نے کشتی یا جہاز یا ریل گاڑی میں خرید و فروخت کی، تو عقد منعقد ہو جائے گا، برابر ہے کہ یہ چیزیں ٹھہری ہوں یا چل رہی ہوں، بخلاف زمین پر چلنے اور جانور پر سفر کرنے کے، کیونکہ بندہ ان چیزوں (کشتی، جہاز، ریل گاڑی) کو روکنے کی قدرت نہیں رکھتا، لہذا ان کی مجلس کو ایک مجلس شمار کیا جائے گا، اگرچہ مجلس لمبی ہو۔ بہر حال جانور، تو اس کو روکنا سوار کی قدرت میں ہوتا ہے۔ (الفقہ الاسلامی و ادلتہ، ج 5، ص 3329، مطبوعہ دار الفکر، دمشق)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-7479

تاریخ اجراء: 22 محرم   الحرام 1446 ھ/ 29جولائی 2024 ء