
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص مالی مشکلات کی وجہ سے خود قربانی نہ کرے بلکہ قربانی کے ایک حصہ کے برابر رقم کسی فاؤنڈیشن کو دیدے اور اس کی طرف سے قربانی کردی جائے، لیکن وہ اس قربانی کا گوشت خود نہ کھائے، بلکہ سارا گوشت صدقہ ہوجائے، تو کیا اس کی قربانی صحیح ہوجائے گی؟ یا اسے گھر لا کر گوشت کا ایک حصہ کھانا پڑے گا تاکہ اسے صحیح طریقے سے پورا کیا جاسکے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اپنےقربانی کے جانور کے گوشت میں سے کچھ کھالینا سنت و مستحب عمل ہے، حدیث پاک میں ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم عید الاضحیٰ والے دن بغیر کچھ کھائے عیدگاہ تشریف لے جاتے اور نماز کے بعد اپنے قربانی کے جانور کی کلیجی سے کھانے کی ابتدا فرماتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے کہ جب آپ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی تو اپنے غلام سے فرمایا کہ ان دونوں میں سے تھوڑا تھوڑا گوشت میرے کھانے کے لیے لے آؤ۔ لیکن یہ صرف ایک مستحب و بہتر عمل ہے، ضروری ہرگز نہیں، لہذا اگر کوئی قربانی کے جانور میں سے کچھ بھی گوشت خود نہ کھائے بلکہ سارا کا سارا گوشت ہی صدقہ کردے جیسا کہ عام طور پر وقف قربانیوں میں ہوتا ہے کہ پورا جانور، یا مکمل حصہ فقراء میں تقسیم کردیا جاتا ہے، تو یہ بھی شرعاً جائز ہے اور اس سے قربانی پر کوئی اثر بھی نہیں پڑے گا، کیونکہ قربانی میں اصل قربت، جانور کا خون بہانا ہے، جب جانور کا خون بہا دیا جائے، تو اسی سے قربانی ہوجاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نماز عید کے بعد اپنے قربانی کے جانور کے کلیجی تناول فرماتے، چنانچہ سنن کبری للبیہقی کی حدیث مبارکہ ہے:
’’كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا كان يوم الفطر لم يخرج حتى يأكل شيئا، و إذا كان الأضحى لم يأكل شيئا حتى يرجع، و كان إذا رجع أكل من كبد أضحيته‘‘
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید الفطر والے دن گھر سے نہ نکلتے تھے، یہاں تک کہ کچھ کھالیتے، اور عید الاضحیٰ والے دن کچھ نہ کھاتے تھے، یہاں تک کہ واپس تشریف لے آتے اور جب واپس تشریف لاتے تو اپنی قربانی کی کلیجی تناول فرماتے۔ (السنن الکبری للبیھقی، جلد 3، صفحہ 401، رقم الحدیث: 6161، دار الكتب العلمية، بيروت)
مسند احمد کی حدیث مبارکہ ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا ضحى أحدكم فليأكل من أضحيته
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی قربانی کرے، تو چاہئے کہ وہ اس قربانی میں سے کھائے۔ (مسند احمد، جلد 15، صفحہ 36، رقم الحدیث: 9078، مؤسسة الرسالة)
اس حدیث کی شرح میں علامہ عبد الروؤف مناوی علیہ الرحمۃ ’’التیسیر شرح الجامع الصغیر‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:
(إذا ضحى أحدكم فليأكل) ندبا مؤكدا (من أضحيته) ومن كبدها أولى قال تعالى فكلوا منها و اطعموا البائس الفقير
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی قربانی کرے تو وہ اپنی قربانی میں سے کھائے، یہ تاکیدی طور پر مستحب ہے، اور جانور کی کلیجی کھانا زیادہ مناسب ہے،(اور قربانی کے جانور کا گوشت کھانے سے متعلق) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: پس تم اس میں سے کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر، جلد 1، صفحہ 113، مطبوعہ ریاض)
اپنے قربانی کے جانور کے گوشت کو کھانا مستحب ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
ويستحب له أن يأكل من أضحيته لقوله تعالى - عز شأنه - {فكلوا منها و اطعموا البائس الفقير} [الحج: 28]
و روي عن النبي - عليه الصلاة و السلام - أنه قال: إذا ضحى أحدكم فليأكل من أضحيته و يطعم منه غيره. و روي عن سيدنا علي - رضي الله عنه - أنه قال لغلامه قنبر - حين ضحى بالكبشين يا قنبر خذ لي من كل واحد منهما بضعة و تصدق بهما بجلودهما و برء و سهما و بأكارعهما، ۔۔۔ و لو تصدق بالكل جاز و لو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة‘‘ ملتقطاً۔
ترجمہ: اور قربانی کرنے والے کیلئے مستحب ہے کہ اپنی قربانی میں سے کھائے، اللہ عزو جل کے اس فرمان کے سبب: پس اس میں سے کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ۔ (الحج: 28)، اور نبی ﷺ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی قربانی کرے تو وہ اپنی قربانی میں سے کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے غلام قنبر سے فرمایا، جب دو مینڈھوں کی قربانی کی: اے قنبر! ان میں سے ہر ایک سے میرے لیے ایک ایک ٹکڑا لے آ، اور ان دونوں کی کھال، دونوں کے سروں، اور ان کی پنڈلیوں کو صدقہ کر دے۔۔۔ اور اگر کوئی سارا گوشت صدقہ کر دے تو جائز ہے، اور اگر سارا گوشت اپنے لیے روک لے تو بھی جائز ہے، کیونکہ اصل عبادت خون بہانے میں ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 81،80، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’و يستحب أن يأكل من أضحيته و يطعم منها غيره۔۔۔ و لو تصدق بالكل جاز، و لو حبس الكل لنفسه جاز‘‘ملتقطاً۔
ترجمہ: اور مستحب ہے کہ اپنے قربانی کے جانور کے گوشت کو کھائے اور دوسروں کو کھلائے، اور اگر سارا گوشت صدقہ کردیا تو بھی جائز ہے اور سارا گوشت ہی اپنے لئے رکھ لیا، تو یہ بھی جائز ہے۔ (الفتاو ی الھندیہ، جلد 5، صفحہ 300، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے کھلا سکتا ہے بلکہ اوس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کرے ایک حصہ فقرا کے لیے اور ایک حصہ دوست و احباب کے لیے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے، ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے۔ اور کل کو صدقہ کر دینا بھی جائز ہے اور کل گھر ہی رکھ لے یہ بھی جائز ہے‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 345، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-784
تاریخ اجراء: 19 ذی الحجۃ الحرام 1446 ھ/ 16 جون 2025 ء