قربانی کے لیے 50 لاکھ کا ایک بڑا جانور افضل ہے یا 5 لاکھ کے 10

50 لاکھ کا ایک بڑا جانور قربانی کے لیے لینا افضل ہے یا 5 ، 5 لاکھ کے 10 جانور ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  50 لاکھ کا ایک بہت بڑا جانور لینا اور اس کی قربانی کرنا یہ افضل ہے یا پانچ ، پانچ لاکھ کے دس جانور ذبح کر دیے جائیں؟یہ جانور بھی اچھے فربہ ہوں گے اور ان کا مجموعی گوشت لازمی طور پر ایک جانور سے زیادہ ہوگا۔ اس طرح  زیادہ لوگوں  تک گوشت بھی  پہنچے گا اور کھالوں کے ذریعے غربا کی مدد بھی زیادہ ہوجائے گی۔ لہذا یہ ارشاد فرما دیں کہ  دونوں میں افضل کیا ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورت مسئولہ میں پچاس لاکھ کا ایک بڑا جانور لینے کے بجائے پانچ پانچ لاکھ کے دس جانور لینا افضل ہے۔

اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ قربانی کے جانور کے افضل ہونے کے اعتبار سے تین اسباب ذکر کئے جاتے ہیں: (1)گوشت زیادہ ہونا۔(2) قیمت زیادہ ہونا۔(3)گوشت کا اطیب (اچھا) ہونا۔ ان تینوں اسباب کے پائے جانے کی صورت میں جس جانور میں گوشت زیادہ ہوگا وہ مطلقا دیگر سے افضل ہوگا۔ یہی معتمد اور مختار قول ہے۔  نیز گوشت کے زیادہ ہونے کی وجہ ہی ہے کہ اونٹ کی قربانی کو دوسرے جانوروں سے افضل کہا گیا کہ اس کے بڑا ہونے کی وجہ سے اس میں لامحالہ گوشت زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ گوشت والے جانور کی قربانی افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گوشت زیادہ ہونے میں فقرا کا نفع زیادہ ہوگا، تقسیم میں وسعت ہوگی اور قربانی والے دن گوشت کی تقسیم میں وسعت ہونا  ہی مستحب ہے۔پھر جس طرح ایک جانور کہ  جس میں گوشت زیادہ ہے وہ دوسرے سے بہتر ہے، تو اسی طرح دو جانور ایک جانور سے افضل ہوں گے کہ ان میں بھی گوشت زیادہ ہوگا۔  البتہ یہ خیال کیا جائے کم قیمت والے جانور لاغر نہ ہوں کہ جانور کا اطیب ہونا بھی شریعت کو مرغوب ہے۔ لہذاصورت مسئولہ میں جب وہ پانچ پانچ لاکھ والے دس جانور بھی اچھے اور فربہ ہیں تو یقینا ان کا گوشت پچاس لاکھ والے ایک مہنگے جانورسے زیادہ ہوگا اس لئے پچاس لاکھ کے ایک  مہنگے جانور کے بجائے اسی قیمت کے دس جانوروں کی قربانی افضل ہے۔

درمختارمیں ہے:

’’الشاۃ افضل من سبع البقرۃ اذا استویا فی القیمۃ واللحم ،والکبش افضل من النعجۃ اذا استویا فیھما،والانثی من المعز افضل من التیس اذا استویا قیمۃ،والانثی من الابل والبقرۃ افضل ،حاوی، وفی الوھبانیۃ ان الانثی افضل من الذکر اذا استویا قیمۃ‘‘

بکری گائے کے ساتویں حصہ سے   افضل ہے،جبکہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابر  ہوں اور مینڈھا،بھیڑ سےافضل ہے جبکہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابرہوں،اوربکری بکرےسے افضل ہےجبکہ دونوں قیمت میں برابر ہوں،اوراونٹنی اورگائے (اونٹ اور بیل سے)افضل ہیں،حاوی،اوروہبانیہ میں ہےکہ مادہ نرسے افضل ہےجبکہ دونوں قیمت میں برابر ہوں۔ (درمختار مع رد المحتار،ج9،ص534،مطبوعہ کوئٹہ)

ردالمحتار میں ہے:

’’قولہ:(اذا استویا الخ)فان کان سبع البقرۃ اکثر لحما فھوافضل، والاصل فی ھذا اذا استویا فی اللحم والقیمۃ فاطیبھما لحما افضل،واذا اختلفافیھما فالفاضل اولی۔ تاترخانیۃ ‘‘

ترجمہ:پس اگرگائے کاساتواں حصہ زیادہ گوشت والاہو تووہ ہی افضل ہے،اوراس بارے میں قاعدہ یہ ہےکہ جب دونوں جانورگوشت اورقیمت میں برابرہوں توان میں عمدہ گوشت والاافضل ہے،اوراگرگوشت اور قیمت میں برابرنہ ہوں توخوبی میں زائد بہترہے۔( رد المحتار مع الدرالمختار،ج9،ص534،مطبوعہ کوئٹہ)

اسی میں ہے:

’’قولہ:(اذا استویا فیھما)فان کانت النعجۃ اکثر قیمۃ اولحما فھی افضل۔ذخیرۃ ۔ط‘‘

مصنف علیہ الرحمۃ کا قول:(جب دونوں گوشت و قیمت میں برابر  ہوں)تواگربھیڑ گوشت یاقیمت میں زیادہ ہوتووہی افضل ہے۔ذخیرۃ۔طحطاوی۔(رد المحتار مع الدرالمختار ،ج9،ص534،مطبوعہ کوئٹہ)

شرح وہبانیہ میں اس کی وجہ یہ لکھی ہے :

وجہ کون السبع اولی اذا کان اغلی و اکثر لحما فانہ متی کان اکثر منھا ثمنا کان اکثر لحما و متی کان اکثر لحما کان انفع للفقراء واوسع والتوسعۃ فی ذلک الیوم مندوب الیھا‘‘

ساتواں حصہ جب زیادہ قیمت اور زیادہ گوشت والا ہو تو اس کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ زیادہ قیمت والا ہوگا تو زیادہ گوشت والا ہوگا اور جب وہ زیادہ گوشت والا ہوگا تو فقراء کے لئے زیادہ فائدہ مند اور زیادہ وسعت والا ہوگا اور اس دن وسعت مستحب ہے۔(شرح وھبانیہ،ص232، مخطوط)

محیط میں اونٹ کے افضل ہونے کے متعلق ہے:’’في أضاحي الزعفراني:البعير أفضل من البقر؛ لأنه أعظم‘‘ اونٹ گائےسے افضل ہے کیونکہ وہ بڑا(گوشت میں زائد) ہوتا ہے۔ (المحیط البرھانی،ج8،ص468،مطبوعہ کراچی)

فتاوی بزازیہ میں افضل ہونے کے ترتیب کچھ یوں بیان کی ہے:

’’الابل افضل ثم البقر ثم الغنم من المعز والبقر افضل من الشاۃ اذا استویا قیمۃ لانہ اعظم و اکثر والشاۃ افضل من سبع البقرۃ اذا استویا قیمۃ و لحماً فاذا استویا قیمۃ فاطیبھما لحماً افضل وان اختلفا فالفاضل افضل‘‘

اونٹ افضل ہے پھر گائے پھر بکری ،بھیڑ سے اور گائے  بکری سے افضل ہے جبکہ دونوں  قیمت میں برابر ہوں کیونکہ گائے زیادہ عظیم اور زیادہ گوشت والی ہےاوربکری گائے کےساتویں حصہ سےافضل ہے،جبکہ دونوں قیمت اورگوشت میں برابر  ہوں پس جب دونوں قیمت کے اعتبار سے برابر ہوں تو ان میں عمدہ گوشت والا افضل ہوگا اور اگر قیمت و گوشت میں مختلف ہوں تو خوبی میں زائد افضل ہوگا۔

فتاوی بزازیہ کے اسی صفحہ پر  ایک قیمت میں ایک جانور لینے کے بجائے دو جانور لینے کے افضل ہونے کے متعلق ہے۔

" وشراء شاتین بثلاثین افضل من شراء شاۃ بثلاثین"

ترجمہ: تیس درہم میں ایک بکری خریدنے سے تیس درھم میں دو بکریاں خریدنا افضل ہے۔(فتاوی بزایہ، کتاب الاضحیۃ، ج2، ص408، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے:" بکری کی قیمت اور گوشت اگر گائے کے ساتویں حصہ کی برابر ہو تو بکری افضل ہے اور گائے کے ساتویں حصہ میں بکری سے زیادہ گوشت ہو تو گائے افضل ہے یعنی جب دونوں کی ایک ہی قیمت ہو اور مقدار بھی ایک ہی ہو تو جس کا گوشت اچھا ہو وہ افضل ہے اور اگر گوشت کی مقدار میں فرق ہو تو جس میں گوشت زیادہ ہو وہ افضل ہے اور مینڈھا بھیڑ سے اور دنبہ دنبی سے افضل ہے جبکہ دونوں کی ایک قیمت ہو اور دونوں میں گوشت برابر ہو۔ بکری بکرے سے افضل ہے مگر خصی بکرا بکری سے افضل ہے اور اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے جبکہ گوشت اور قیمت میں برابر ہوں۔" (بھار شریعت،ج3، حصہ 15، ص340، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

’’قال بعضھم:اذا کان قیمۃ الشاۃ اکثر من قیمۃ البدنۃ فالشاۃ افضل لان الشاۃ کلھا تکون فرضاً و البدنۃ سبعھا یکون فرضاً،والباقی یکون نفلاً و ما  کان کلھا فرضاً کان افضل۔وقال الشیخ الامام الجلیل ابو بکر محمد بن الفضل رحمہ اللہ تعالی:البدنۃتکون افضل لانھا اکثر لحماً من الشاۃو ما قالو:بان البدنۃ یکون بعضھا نفلاً فلیس کذلک بل اذا ذبحت عن واحد کان کلھا فرضاً۔و شبہ ھذا بالقراءۃ فی الصلاۃ لو اقتصر علی ما تجوز بہ الصلوۃ،جازت ولو زاد علیھا یکون الکل فرضا‘‘

بعض فقہاء نے فرمایا:جب بکری کی قیمت بدنہ(گائے،اونٹ)سے زیادہ ہو تو بکری افضل ہے کیونکہ بکری  پوری کی پوری فرض کے طور پر ہوگی اور بدنہ کا ساتواں حصہ فرض کے طور پر ہوگا اور باقی نفل،اور جو چیز پوری فرض واقع ہو وہ زیادہ فضیلت والی ہوگی۔اور شیخ امام ِ جلیل ابو بکر محمد بن فضل رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:بدنہ افضل ہے کیونکہ وہ بکری سے گوشت کے اعتبار سے زائد ہوتا ہے،اور انہوں نے جو فرمایا:کہ اس کا بعض نفل ہوگا ،تو ایسا نہیں ہے بلکہ بدنہ جب ایک شخص کی طرف سے ذبح کیا جائے تو پورا ہی فرض کے طور پر ہوگا۔اور اس کوتشبیہ دی جائے گی نماز میں قراءت کے ساتھ کہ اگر نمازی نے اتنی مقدار پر اکتفاء کیا جس سے نماز جائز ہوجاتی ہے،تو یہ جائز ہےاور اگر اس مقدار سے زیادتی کی تو پوری قراءت فرض واقع ہوگی۔ (فتاوی قاضی خان،ج3،ص235،مطبوعہ کوئٹہ)

اسلوب سے ظاہر ہے کہ علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ کے نزدیک راجح و مختار دوسرا قول ہے کہ دوسرے قول کو آپ نے دلیل سے مزین کیا ہے اور یہ اعتماد و اختیار کی دلیل ہے اورجہاں ترجیح میں اختلاف ہو،علامہ قاضی خان علیہ الرحمۃ کی ترجیح کو فوقیت حاصل ہوتی ہے اوریہاں جب پہلے قول کی کوئی ترجیح موجود نہیں توضرور امام قاضی خان علیہ الرحمۃ کی ترجیح پر عمل کیا جائے گا۔اس طرح یہ مسئلہ زائد گوشت والے کے مطلقاً افضل ہونے کی دلیل بنے گا کہ یہاں بکری کے قیمت اور اطیب ہونے میں زائد ہونے کے باوجود امام جلیل ابو بکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بدنہ کو اس کے گوشت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے افضل قرار دیا۔اوپر مذکور بہار شریعت کے  یہ الفاظ’’ گوشت کی مقدارمیں فرق ہوتوجس میں گوشت زیادہ وہ افضل‘‘ بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کہ ان میں بھی  مدار گوشت کے زائد ہونے پر رکھا گیا ہے،قیمت کا کوئی ذکر نہیں کیا  گیا،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیمت چاہے کم ہو یا زیادہ گوشت اگر زیادہ ہو تو اسی کو افضل قرار دیا جائے گا۔

شرح عقود رسم المفتی میں  ہے:

’’ لو ذکروا قولین مثلا وعللوا لاحدھما کان ترجیحا لہ علی غیر المعلل کما افادہ الخیر الرملی فی کتاب الغصب من فتاواہ الخیریۃ ونظیرہ مافی التحریر وشرحہ فی فصل الترجیح فی المتعارضین  ان الحکم الذی تعرض فیہ للعلۃ یترجح علی الحکم الذی لم یتعرض فیہ لھا لان ذکر علتہ یدل علی الاھتمام  بہ والحث علیہ ‘‘

مثال کے طور پراگر فقہاء نے دوقول ذکرکئے ہوں اور ان میں سے ایک کی علت بیان کی  ہو تو اس کو، غیرمعلل(جس کی علت بیان نہیں کی گئی ) پر ترجیح حاصل ہوگی جیساکہ امام خیر الدین الرملی نے اپنے فتاوی خیریہ کی کتاب الغصب میں یہ فائدہ بیان کیا ہے اور اس کی نظیر وہ ہے جو تحریر اور شرح تحریر کی فصل الترجیح فی المتعارضین  میں ہےکہ وہ حکم جس کی علت بیان کی گئی ہو وہ راجح ہوتا ہے اس حکم پر جس کی علت بیان نہ کی گئی ہو کیونکہ اس کی علت کا ذکر اس کے اہم ہونے اور اس پر ابھارنے پر دلالت کرتا ہے۔( شرح عقود رسم المفتی،ص 37،مطبوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:ابو شاھد محمد ماجد علی مدنی

مصدق:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:KNL- 0048

تاریخ اجراء:05ذوالحجۃ الحرام 1445 ھ/12جون2024ء