
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اور میرے بھائی دونوں نے مل کر قربانی کے لیے ایک گائے خریدی۔ لیکن چند دنوں بعد وہ گائے اتنی بیمار، کمزور اور لاغر ہوگئی کہ اس سے کھڑا بھی نہیں ہوا جارہا تھا، جس وجہ سے ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں مر نہ جائے، تو ہم نے وہ گائے ذبح کر دی اور اس کا سارا گوشت بانٹ دیا۔ شرعی رہنمائی فرما دیں کہ اب ہمارے لیے کیا حکمِ شرعی ہے؟ کیا ہم دوبارہ قربانی کریں یا ہم پر مزید قربانی کرنا لازم نہیں ہے؟
نوٹ: سائل سے صاحبِ نصاب ہونے سے متعلق وضاحت لی ہے، جس کے مطابق دونوں بھائی صاحبِ نصاب نہیں بنتے یعنی دونوں بھائیوں کی ملکیت میں حاجتِ اصلیہ سے زائد ساڑھے باون تولے چاندی، یا حاجتِ اصلیہ سےزائد اتنی مالیت کا اور بھی کوئی مال نہیں ہے۔ دونوں نے کچھ سالوں سے قربانی کے لیے تھوڑی تھوڑی رقم کے جوڑی ہوئی تھی، جس سے جانور خریدا تھا، باقی وہ دونوں صاحبِ نصاب نہیں ہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ دونوں بھائیوں پر مزید قربانی کرنا لازم نہیں ہے، کیونکہ جو شخص صاحبِ نصاب نہ ہو یعنی جس کے پاس حاجتِ اصلیہ اور قرض سے زائد ساڑھے سات تولے سونا، یا کم از کم ساڑھے باون تولے چاندی، یا حاجت سے زائد اتنی چاندی کی مالیت کے برابر رقم، یا کوئی بھی چیز نہ ہو، ایسا شخص شرعی فقیر کہلاتا ہے اور اس پر قربانی لازم نہیں ہوتی۔ اگر ایسا شخص قربانی لازم نہ ہونے کے باوجود قربانی کے لیے جانور خرید لے، تو اب اس پر خاص اسی جانور کی قربانی کرنا لازم ہوجاتا ہے اور اگر وہ جانور مر جائے، تو فقیرِ شرعی پر مزید کسی جانور کی قربانی لازم نہیں ہوتی، ہاں اگر بیماری وغیرہ کسی وجہ سے جانور کو ذبح کر دیا، تو پھر گوشت کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہوتا ہے کہ مالک خود اس جانور کا گوشت استعمال نہیں کرسکتا، بلکہ صدقہ کرنا ہوتا ہے، باقی ایسے شخص پر دوبارہ قربانی کرنا لازم نہیں ہوتا، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ بھی مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق نصاب کے مالک نہیں ہیں، اس لیے اب آپ پر مزید قربانی کرنا لازم نہیں ہے۔
فقیر قربانی کی نیت سے جانور خریدے تو اُس پر خاص اُس جانور کی قربانی واجب ہو جاتی ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’و اما الذی یجب علی الفقیر دون الغنی فالمشتری للاضحیۃ اذا کان المشتری فقیرا، بان اشتری فقیر شاۃ ینوی ان یضحی بھا‘‘
ترجمہ (قربانی کے وجوب کی کئی صورتیں ہیں) بہر حال (اُن میں سے) وہ صورت کہ فقیر پر واجب ہونہ کہ غنی پر، تو وہ قربانی کے لئے جانور خریدنا ہے جبکہ خریدنے والا فقیر ہو،یعنی شرعی فقیر قربانی کی نیت سے بکری خریدے (تو اُس پر خاص اُسی جانور کی قربانی واجب ہو جائے گی)۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الاضحیہ، الباب الاول فی تفسیرھا۔۔۔الخ، جلد 5، صفحہ 360، مطبوعہ کراچی)
شیخ الاسلام و المسلمین امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’فقیر اگر بہ نیت قربانی خریدے اس پر خاص اُس جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ جلد 20، صفحہ 451، رضا فاونڈیشن، لاھور)
قربانی کے نیت سے جانور خریدا،کسی وجہ سے باقی نہ رہا تو فقیر کے ذمے دوسرا جانور قربان کرنا واجب نہیں، چنانچہ در مختار میں ہے:
’’لو ماتت فعلی الغنی غیرھا لا الفقیر‘‘
ترجمہ:اگر قربانی کا جانور مر جائے تو غنی پر دوسرا جانور واجب ہو گا نہ کہ فقیر پر۔ اس کے تحت شامی میں ہے:
’’انہ ان کان موسرا تلزمہ اخری بایجاب الشرع ابتداء لا بالنذر و لو معسرا لا شیء علیہ اصلا‘‘
ترجمہ: ’’اگر خریدار خوشحال (صاحبِ نصاب )ہے تو اُس پر دوسرا (جانور) لازم ہو گا شریعت کے ابتداءً واجب کرنے کے ساتھ نہ کہ نذر کے سبب،اور اگر خریدار تنگدست (شرعی فقیر )ہے، تو اُس پر اصلاً مزید کچھ بھی لازم نہیں ہوگا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الاضحیہ، جلد 9، صفحہ 539، مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:’’قربانی کا جانور مر گیا تو غنی پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمہ دوسرا جانور واجب نہیں۔‘‘ (بہار شریعت، حصہ 15، صفحہ 342، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وقت سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر دیا تو اس کے گوشت کے حوالے سے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”أن المشتراة للأضحية متعينة للقربة فلا يحل له الانتفاع بها ما دامت متعينة ولهذا لا يحل له لحمها إذا ذبحها قبل وقتها“
ترجمہ: قربانی کے لیے خریدار ہوا جانور تقرب الی اللہ کے لیے خاص ہوجاتا ہے ،تو جب تک وہی متعین ہے، تو اس سے کسی قسم کا بھی نفع اٹھانا ، جائز نہیں ہوتا، اسی وجہ سے جب وقت سے پہلے اسے ذبح کر دیا، تو اس کا گوشت استعمال کرنا مالک کے لیے جائز نہیں ہوتا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الاضحیۃ، جلد 9، صفحہ 544، مطبوعہ کوئٹہ)
اسی طرح فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
” و لو اشترى شاة للأضحية يكره أن يحلبها أو يجز صوفها فينتفع به؛ لأنه عينها للقربة فلا يحل له الانتفاع بجزء من أجزائها قبل إقامة القربة بها، كما لا يحل له الانتفاع بلحمها إذا ذبحها قبل وقتها و من المشايخ من قال: هذا في الشاة المنذور بها بعينها من المعسر و الموسر، و في الشاة المشتراة للأضحية من المعسر“
ترجمہ: اگر قربانی کے لیے بکری خریدی اس کا دودھ استعمال کرنا مکروہ ہے، اس کی اون سے نفع حاصل کرنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ تقرب الی اللہ کے لیے خاص ہوچکی ہے، تو اس کے کسی بھی جزو سے قربت (یعنی عید والے دن ذبح سے) پہلے نفع اٹھانا جائز نہیں، جیسا کہ اگر وقت سے پہلے ذبح کر دیا، تو اس کے گوشت سے نفع اٹھانا، جائز نہیں ہوتا۔ اور مشائخ میں سے کچھ نے کہا ہے کہ یہ حکم اس بکری کے بارے میں ہے جس کو غنی اور فقیر نے نذر مان کر معین کر لیا ہو، اور اس بکری کے بارے میں ہے جس کو تنگدست (شرعی فقیر) نے قربانی کے لیے خریدا ہو۔ (الفتاوی الھندیہ، کتاب الاضحیۃ، الباب السادس، جلد 5، صفحہ 300، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Aqs-2789
تاریخ اجراء: 09 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 06 جون 2025 ء