
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ فقہائے کرام نے لکھا کہ ایامِ حج کی راتیں گزرے دنوں کے تابع قرار پاتی ہیں، مثلاً: شبِ عرفہ وہ رات ہے، جو نو ذوالحجہ کا دن گزرنے کے بعد آئے گی، یعنی جو اصولی اعتبار سے دس تاریخ کی رات بنتی ہے، اُسے ایامِ حج میں پچھلے دن کے تابع شمار کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہےکہ ایام حج کے دوران رات کو گزرے دن کے تابع قرار دینا صرف حجاج کرام کے لیے ہے یا ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے یہی حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حجاج کرام کے لیے یومِ عرفہ اور ایامِ نحر کی راتیں اپنے سے پچھلے دنوں کے تابع ہوتی ہیں۔ یہ حکم ساری دنیا کے لوگوں کے لیے نہیں ، بلکہ صرف حجاج کرام کے ساتھ مخصو ص ہے، کیونکہ راتوں کو آئندہ آنے والے دن کی بجائے گزرےہوئے دن کے تابع قرار دینے کی علت بیان کرتے ہوئے فقہائے کرام نے حجاج کرام کی تخصیص کی ہے، کہ یوں اُنہیں اپنے مناسک ادا کرنے میں وسیع وقت مل جاتا ہے،مثلاً:
(1)نو ذوالحج کا دن مکمل ہونے کے بعد شروع ہونے والی رات حالانکہ دس تاریخ کی رات یعنی ”لیلۃ النحر“ بنتی ہے، مگر حجاج کی آسانی اور صحتِ وقوفِ عرفہ کے لیے اُس رات کو نو ذوالحج کی رات یعنی ”لیلۃ العرفۃ“ شمار کیا گیا، لہذا اگر کوئی حاجی اُس رات میں وقوفِ عرفہ کرتا ہے، تو اُس کا رکنِ اعظم یعنی وقوفِ عرفہ ادا ہو جائے گا، اگرچہ دن میں وقوف نہ کرنے کے سبب دَم لازم آئے گا۔
(2)اِسی طرح دس تاریخ کی رمی کا وقت دس تاریخ کی فجر کا وقت شروع ہونے سے اگلے دن کی فجر کا وقت شروع ہونے تک ہے، یعنی اصولی طور پر گیارہ ذوالحج کی رات بھی شامل ہوتی ہے، مگر حجاج کے حق میں اُسے دس ذوالحج کی رات ہی سمجھا گیااور اُس گیارہویں رات میں دسویں کی رمی درست قرار پائی، اگرچہ رمی کے لیے رات کاوقت ،مکروہ وقت ہے۔یونہی گیارہ کی رمی کے لیے اگلی رات طلوعِ فجر تک وقت ہوتا ہے، حالانکہ وہ رات اصولاً بارہویں کی رات ہوتی ہے، مگر اُس میں گیارہویں کی رمی درست ہے۔ اِسی طرح بارہویں کے دن کی رمی کے لیے تیرہویں والی رات کو بارہویں رات قرار دیا جاتا ہے۔
راتوں کی تبعیت کے متعلق علامہ علاؤ الدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:
”اعلم أن الليالي تابعة للأيام إلا ليلة عرفة وليالي النحر فتبع للنهر الماضية رفقا بالناس، كما في اضحية الولوالجية“
ترجمہ:آپ جان لیجیے کہ راتیں آنے والے دنوں کے تابع ہوتی ہیں، مگر عرفہ اور ایام نحر کی راتیں پچھلے دنوں کے تابع ہوتی ہیں اور یوں تبعیت کی وجہ حجاج کرام کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے، جیسا کہ ”الفتاوٰی الولوالجیۃ “کی ”کتاب الاضحیۃ“ میں ہے۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد06، صفحہ446، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
”در المختار“ کی عبارت میں ”الناس“ سے مراد حجاج ہیں، ساری دنیا کے عوام نہیں، چنانچہ علامہ اَحمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1231ھ/1815ء) نے ” الناس “ کو ”وقوفِ عرفہ“ سے جوڑ کر متعین کر دیا کہ اس سے مراد حاجی ہیں اور خلافِ عادت، رات کو گزرےدن کے تابع ماننا صرف حجاج کے لیے ہے، چنانچہ” رفقا بالناس “ کے تحت لکھا:
”فان فیہ توسعۃ علی الناس بصحۃ وقوفھم لیلۃ النحر“
ترجمہ:بے شک رات کو گزرے دن کے تابع قرار دینے میں حجاج کرام کے لیے آسانی اور گنجائش پیدا کرنا ہے کہ اُن کا دسویں کی رات یعنی ”لیلۃ النحر“ میں بھی وقوفِ عرفہ درست ہو جائے گا۔(یعنی جو دسویں کی رات ہے، وہ نو تاریخ کے دن کے تابع قرار دی جائے گی اور رات کو بھی وقوفِ عرفہ درست ہو گا۔)(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد03، صفحہ 468، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
دیگر کتبِ فقہ میں بھی اِس تبعیت والے مسئلے کی تفریع حجاج اور امورِ مناسک ادا کرنے والوں کے حق میں باندھی گئی، چنانچہ ”الفتاوٰی الولوالجیۃ“ میں ہے:
”الليل في باب المناسك تبع للنهار الذي تقدم ولهذا لو وقف بعرفة ليلة النحر قبل الطلوع أجزأه“
ترجمہ:اعمالِ حج کے باب میں رات اُس دن کے تابع قرار پاتی ہے، جو گزر چکا، اِسی لیے اگر کوئی”لیلۃ النحر“ میں وقوفِ عرفہ کرے تو وقوف درست ہو جائے گا۔ (الفتاوٰی الولوالجیۃ ، جلد01، صفحہ 295، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) نے نہایت واضح اور متعین انداز میں اِس مسئلہِ تبعیت کو صرف افعالِ مناسک کے ساتھ خاص کیا، جس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ رات کےپچھلے دن کے تابع ہونے کا حکم صرف حجاج کے لیے ہے، چنانچہ لکھا:
”المراد أن الأفعال التي تفعل في النهار من نحر أو وقوف أو نحو ذلك من أفعال المناسك يصح فعلها في الليلة التي تلي ذلك النهار رفقا بالناس“
ترجمہ:مراد یہ ہے کہ وہ تمام اَفعال جو دن میں کیے جاتے ہیں، یعنی قربانی، وقوفِ عرفہ یا دیگر مناسکِ حج مثلاً:رمی ، تو اُن سب کا اُس آنے والی رات میں کرنا بھی درست ہے، جو رات اس دن سے جڑی ہوئی ہے، کیونکہ اِس میں حجاج کے لیے آسانی ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 06 ، صفحہ 447 ، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
البتہ رات کے وقت میں وقوفِ عرفہ کیااوردن میں بالکل نہ کیا،تو دم لازم آئےگا، چنانچہ”حاشیۃ الشرنبلالی علی الدرر“ میں ہے:”إن وقف ليلا يجب عليه امتداده كذا في الجوهرة أي وعليه دم لترك الواجب“ترجمہ:اگر حاجی نے رات کے وقت میں وقوفِ عرفہ کیا تو اُس پر امتداد یعنی اُسے دراز کرنا واجب ہے، جیسا کہ ”الجوھرۃ“ میں ہے، البتہ ترکِ واجب یعنی دن میں بالکل وقوف نہ کرنے کے سبب دم واجب ہے۔(غنية ذوی الاحكام في بغية درر الحكام ، جلد1، صفحہ 233، مطبوعہ دار إحياء الكتب العربية، بیروت)
اِس تمام تفصیل کے ساتھ یہ بات یاد رہے کہ حاجیوں کے حق میں رات کو گزرے دن کےتابع قرار دینا صرف حکمی طور پر ہے، ورنہ لغوی اور اصولی اعتبار سے یہ راتیں اگلے دن کے تابع ہی ہوتی ہیں، جیسا کہ سارا سال اور ایام حج میں حاجیوں کے علاوہ باقی سب اِسی ترتیب کا لحاظ کرتے ہیں۔ علامہ شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:
”تبع له في الحكم لا حقيقة، وإلا فكل ليلة تبع لليوم الذي بعدها“
ترجمہ:رات گزشتہ دن کے تابع صرف حکمی طور پر ہے، حقیقت میں نہیں، ورنہ اصولِ عقلی تو یہی ہے کہ ہر رات اُس دن کے تابع ہوتی ہے، جو اُس رات کے بعد آتا ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 06 ، صفحہ 447 ، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-8948
تاریخ اجراء: 15 ذوالحجۃ الحرام1445ھ/22جون 2024ء