آخری دنوں میں حج قران یا تمتع کی نیت کرنے والی عورت کو حیض آنا

آخری دنوں میں حج قران یا تمتع کی نیت کرنے والی عورت کے مخصوص ایام شروع ہو جائیں، تو حکم

دارالافتاء اھلسنت  )دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ اگر کوئی عورت حج کی آخری فلائٹس میں حج کے لیے جا رہی ہو اور حج قِران یا حج تمتع کرنا چاہتی ہو، اور اُنہی دنوں میں اس کی ماہواری  کی تاریخ بھی ہو، تو کیا وہ یہ کر سکتی ہے کہ حج کے بعد جب پاک ہو جائے، تو اُسی احرام میں عمرہ بعد میں کر لے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر عورت نے حج قران یا حج  تمتع کی نیت کرلی ہو اور  وہ جب مکہ پہنچے تو ناپاک ہو جس کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکے، پھر وہ  7یا 8 ذوالحجہ کو پاک ہورہی ہو اور اب اُسے  منیٰ جانا ہو، تو کیا ضروری ہے کہ عمرہ کر کے ہی جائے؟یا عمرہ کیے بغیر ارکان حج ادا کرلے اور پھر بعد میں عمرہ کرلے۔کیا ایسا ممکن ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اولاً تو جو عورت حج کے لیے آخری ایام  میں جارہی ہو اور یہی اُس کے ماہواری کے ایام بھی  ہوں جس سے وہ  ایام حج کے بعد، یا ایام حج کے دوران پاک ہوسکتی ہو، اس سے پہلے نہیں ،تو ایسی عورت  حج قران یا حج تمتع کا احرام ہرگز نہ باندھے ،بلکہ اُسے چاہئے کہ  حج اِفراد یعنی  صرف حج کا احرام  باندھ لے کہ یوں اُس   عورت پر  مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرے کی ادائیگی لازم نہ ہوگی،بلکہ وہ مکہ مکرمہ پہنچ کر احرام کی حالت میں رَہ کر ایام حج کے شروع ہونے  کا انتظار کرے گی  اور ایام  حج کے شروع ہونے پر اُسی حج کے  احرام میں تمام  ارکان حج  ادا کرلے گی۔ہاں طواف الزیارہ پاک ہونے تک مؤخر  رکھے گی ، پھر جب پاک ہوجائے گی تو  اُس وقت  طواف الزیارہ کرے گی۔اگر ناپاکی کی وجہ سے بارہ ذوا لحجہ کی غروب آفتاب کے بعد  بھی طواف الزیارہ کرنا پڑے تو  چونکہ یہ تاخیر عذر کی وجہ سے ہوگی،لہذا اس پر  کسی قسم کا کوئی  کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

البتہ  اگر  عورت نے حج قران یا حج تمتع  کے احرام کی نیت کر ہی   لی ہو،لیکن      ماہواری  آنے کی وجہ سے عمرہ ادا   نہ کرسکی ہو ، اور  وقوفِ عرفہ کا وقت قریب آجائے، تواب حکم یہ ہے کہ وہ  حج قران والی عورت عمرے کے احرام کو ختم کرنے کی نیت کرکے  عمرہ چھوڑدے گی اورچونکہ قارنہ عورت نے پہلے سے ہی عمرے کے ساتھ  حج کے احرام کی نیت کی ہوتی ہے ،لہذا دوبارہ  حج کے احرام کی نیت کیے بغیر وہ  اُسی احرام میں  وقوفِ عرفہ کے لیے چلی جائے  گی۔اگر قارنہ عورت رِفض (ترکِ)عمرہ  کی نیت نہ بھی کرے تو جب وہ وقوفِ  عرفہ کرے گی، تو عمرے کے احرام کا خود بخود   ہی رِفض(ترک ) ہو  جائے گا۔البتہ   حج تمتع والی عورت پہلے عمرے کے احرام کو ختم کرنے کی نیت کرے گی اور چونکہ اُس نے پہلے صرف عمرے کے احرام کی نیت کی  ہوتی ہے،لہذا اب وہ عمرہ چھوڑ کر حج کے احرام کی نیت  کرے گی  اورپھر اُس احرام کے ساتھ  وقوفِ عرفہ کے لیے چلی جائے گی۔نیز  دونوں طرح کی عورتیں    ماہواری کی حالت میں اپنے حج کے تمام افعال ادا  کرسکیں گی،صرف  طواف الزیارہ پاک  ہونے  کے بعد ہی ادا کریں گی ،اس سے پہلے ہرگز  نہیں۔نیز   حج قران یا تمتع کی دونوں صورتوں میں عورت نے چونکہ عمرے کے احرام کا رِفض کردیا ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے وہ حج قران یا تمتع کا احرام   نہیں رہتا،بلکہ حج افراد یعنی صرف  حج کا احرام ہوجاتا ہے ،لہذا  قارن یا متمتع پر جو حج کی قربانی یعنی دمِ شکر واجب ہوتی ہے،وہ  اِن سے ساقط ہوجائے گی۔ ہاں عمرے کے احرام کے  رِفض کی وجہ سے ایک دمِ جبر لازم ہوگا ،جو  اُنہیں  حرم مکہ میں ادا کرنا ضروری ہوگا ۔مزید یہ کہ  ایام تشریق کے بعد اُس چھوڑے ہوئے  عمرے کی قضا بھی کرنی ہوگی اور  یہ قضا    اُسی  حج کے احرام میں نہیں ہوسکے گی، بلکہ عمرے کے نئے احرام کی نیت کرنی ہوگی۔

رہی یہ بات کہ اگر حج قران یا حج تمتع والی  عورت7 یا8 ذو الحجہ کو پاک ہوجائے، تو کیا عمرہ ادا کرکے منٰی جائے یا عمرہ کیے بغیر بھی منٰی جاسکتی ہے؟تو  اس صورت میں لازم  تو یہی ہے کہ  عمرہ کرکے ہی منیٰ جائے گی، لیکن اگرسارے قافلے والے منٰی جارہے ہوں اور عورت کو تنہا  منٰی جانے میں قافلے والوں سے بچھڑجانے کا خوف ہو،تو ایسی صورت میں قارنہ   عورت عمرے کے رفض کی نیت  کرکے عمرہ  چھوڑ دے اور  حج کے احرام کی نیت کیےبغیر مِنٰی چلی جائے  اور تمتع والی  عورت بھی  اولاً عمرے کے رِفض کی نیت کرکے عمرہ چھوڑدے اور پھر حج  کا احرام باندھ  کر منٰی چلی جائے ۔ اب ان کے لیے   بقیہ احکام وہی ہوں گے جو اوپر تفصیل سے بیان ہوئے ۔

حائضہ عورت اگر حج افراد کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ آئے ،تو  سوائے طواف الزیارہ کے بقیہ  تمام افعال حج ادا کرے گی ،اور طواف الزیارہ پاک ہونے کے بعد کرے گی۔ اگر  ماہواری کی وجہ سے بارہ ذوالحجہ کے غروب آفتاب کے  بعد طواف الزیارہ کرے تو عذر کی وجہ سے تاخیر پر کفارہ بھی لازم نہیں ہوگا،چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:

’’وإذا قدمت المرأة مكة محرمة بالحج حائضا مضت على حجتها غير أنها لا تطوف بالبيت حتى تطهر لقوله صلى اللہ عليه وسلم  لعائشة  رضی اللہ عنها  «واصنعي جميع ما يصنعه الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت»، فإذا طهرت بعد مضي أيام النحر طافت للزيارة، ولا شيء عليها بهذا التأخير؛ لأنه كان بعذر الحيض‘‘

ترجمہ:اور جب عورت مکہ میں حج کا احرام باندھ کر حیض کی حالت میں آئے،  تو  وہ اپنے حج کے اعمال جاری رکھے گی، سوائے اس کے کہ  وہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گی،یہاں تک کہ پاک ہو جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم  نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’حاجی جو کچھ کرتے ہیں وہ سب کچھ تم بھی کرو، سوائے اس کے کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔‘‘ پھر  جب ایامِ نحر کے بعد وہ پاک ہو جائے ،تو  طواف الزیارہ کرلے ، اور اس پر  تاخیر کی وجہ سے کچھ لازم نہیں ہوگا، کیونکہ یہ تاخیر حیض کے عذر کی بنا پر تھی۔(مبسوط سرخسی،جلد4،صفحہ179،دار المعرفہ،بیروت)

فتاوی حج عمرہ میں سوال ہوا کہ  ہم حجِ قِران کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہمارے ساتھ کچھ خواتین بھی ہیں اور ہماری مکہ آمد آخری ایام میں ہو گی اور خواتین میں سے ایک خاتون کے ایام ماہواری عادت کے مطابق احرام کے بعد شروع ہو جائیں گے ا ب وہ خاتون کس حج کا احرام باندھ کر آئے کہ اُس پر عمرہ کی قضاء اور دَم لازم نہ ہو ،کیونکہ مکہ آمد کے بعد اتنا وقت نہیں ہو گاکہ وہ ماہواری سے پاک ہو؟

اس کے جواب میں فرمایا:’’اُسے چاہئے کہ وہ حجِ افراد کا احرام باندھ لے ،کیونکہ اگر حجِ تمتع یا حجِ قران کا احرام باندھے گی تو ماہواری کی وجہ سے اُسے عمرہ چھوڑنا پڑے گا اور اُس پر عمرہ کی قضا اور دَم لازم آجائے گا، جبکہ حج اِفراد کا احرام باندھنے کی صورت میں عمرہ کا ترک لازم نہیں آئے گا، بلکہ وہ مکہ پہنچ کر حالتِ احرام میں ٹھہری رہے ،پھر جب حاجی منیٰ کو روانہ ہوں،اُن کے ساتھ منیٰ روانہ ہو جائے۔ اِس طرح تمام افعال حج ادا کرے، صرف اِس حالت میں طوافِ زیارت نہیں کرے گی،جب پاک ہو جائے تب طوافِ زیارت کرے، اگرچہ بارہ ذوالحجہ کا سورج غروب ہو جائے اور اُس پر کچھ لازم نہیں آئے گا، ہاں اگر بارہ تاریخ کے غروبِ آفتاب سے قبل پاک ہوئی اور غسل کر کے غروب سے قبل طواف کے چار پھیرے دے سکتی تھی اور اُس نے ایسا نہ کیا تو اُس پر تاخیر کی وجہ سے دَم لازم ہو گا۔‘‘(فتاوی حج و عمرہ ،حصہ5،صفحہ25،24،جمعیت اشاعت اھلسنت ،باکستان)

حج قران میں اگر عمرے کے طواف سے پہلے وقوف عرفہ کرلیا ،تو عمرے کا رِفض ہوجائے گا اور وقوف عرفہ سے پہلے عمرے کے طواف کے مکمل یا اکثر پھیرے نہ ہونے کی وجہ سے  حج  قران باطل ہوجائے گا اور قران کی قربانی بھی ساقط ہوجائے گی ،چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار ،لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:

واللفظ للثانی:’’(الثالث: أن يطوف للعمرة كله أو أكثره قبل الوقوف بعرفة ،فلو ‌لم ‌يطف لها)أی لعمرتہ کلہ أو اکثرہ( حتى ‌وقف ‌بعرفة بعد الزوال ارتفضت عمرته )أی ولو من غیر نیۃ  رفضہ ایاھاثم اذا ارتفضت عمرتہ فعلیہ دم لرفضھا وقضاؤھا بعد ایام التشریق (وبطل قرانه وسقط عنه دمه)أی دم القران للشکر المترتب علی نعمۃ الجمع من اداء النسکین‘‘

ترجمہ:(قران کے احرام  کےدرست ہونے کی شرائط میں سے)تیسری شرط یہ ہے کہ و ہ  شخص(یعنی قارن) عمرہ کا طواف  پورا یا اکثر پھیرے  وقوفِ عرفہ سے پہلے کرے،اگر اس نے عمرے کا طواف مکمل یا اکثر پھیرے نہ کیے،یہاں تک کہ اس نے  وقوف عرفہ کے دن زوال کے بعد وقوف کرلیا، تو اس کا عمرہ  ختم ہوگیا  یعنی اگرچہ عمرے کے رفض کی نیت نہ کی ہو(تب بھی وقوف کرنے سے عمرہ خود بخود ختم ہوجائے گا)۔ پھر جب اس کا عمرہ ختم ہوگیا تو اس پر  رِفض عمرہ کا ایک دم واجب ہو گااور ایام تشریق(یعنی 13 ذو الحجہ ) کے بعد اس عمرے کی قضا  لازم ہوگی اور اس کا قِران  باطل ہو جائے گا اور اس پرسے  قِران کا دمِ شکر  ساقط ہوجائے گا  کہ جو دو عبادتوں کو جمع کرنے کی نعمت پر لازم ہوتا ہے۔ (لباب المناسک مع شرحہ،باب القران،صفحہ285،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

امام ابو منصور محمد بن مکرم کرمانی علیہ الرحمۃ’’المسالک فی المناسک ‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’فإن لم يدخل القارن مكة وتوجه إلى عرفات، فقد صار رافضاًلعمرته بالوقوف ، كذا روى الحسن عن أبي حنيفة رضي الله عنه، على أصح الروايتين ، وهو قولهما ، لما روي أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  أمر عائشة رضي الله عنها برفض العمرة لما حاضت قبل أفعال العمرة، وقال: «أرفضي عمرتك، وأهلي بالحج، واصنعي ما يصنع الحاج، غير أن لا تطوفي بالبيت۔ولو تصور إتيانها وإبقاؤها بعد الوقوف لما أمر بالرفض، ولأن أفعال العمرة قد فاتت وانتهت بالوقوف، فإن حكم القران أن يقدم أفعال العمرة على الحج، وقد تعذر بعد الوقوف‘‘

ترجمہ: پس اگر قارن مکہ میں داخل نہ ہو اور سیدھا عرفات کی طرف چلا جائے، تو وقوفِ عرفہ کے ساتھ وہ اپنے عمرہ کو چھوڑنے والا ہوجائے گا۔ یہی حضرت  حسن  رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے، دو روایتوں میں سے اصح روایت کے مطابق اور یہی دونوں ( یعنی صاحبین، امام ابو یوسف  اور امام  محمد  علیہما الرحمۃ) کا قول ہے کیونکہ مروی  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عمرہ چھوڑنے کا حکم دیا جب وہ عمرہ کے اعمال سے پہلے ماہواری میں مبتلا ہو گئیں، اور فرمایا: ’’اپنا عمرہ چھوڑ دو اور  حج کا احرام باندھو، اور وہ سب کچھ کرو جو حاجی کرتا ہے، سوائے اس کے کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرو‘‘۔  اگر عمرہ کو وقوف کے بعد ادا کرنا اور اس کا  وقوف کے بعد باقی رہنا ممکن ہوتا تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  عمرے کے ترک کا حکم نہ دیتے، اور اس لیے بھی کہ وقوف سے عمرہ کے اعمال فوت ہو جاتے  ہیں ، کیونکہ قران کا حکم یہ ہے کہ عمرہ کے اعمال کو حج سے پہلے ادا کیا جائے، اور وقوف کے بعد یہ ممکن نہیں  رہتا۔ (المسالک فی المناسک ،فصل فی القران،صفحہ649،648،دارا لبشائر الاسلامیہ)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ماہواری کی وجہ سے عمرہ چھوڑنے اور حج کا احرام باندھنے سے متعلق صحیح بخاری شریف کی حدیث مبارک ہے:

’’ عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَهْلَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلّٰى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ، فَكُنْتُ مِمَّنْ تَمَتَّعَ وَلَمْ يَسُقْ الهَدْيَ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا حَاضَتْ وَلَمْ تَطْهُرْ حَتَّى دَخَلَتْ لَيْلَةُ عَرَفَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللہِ، هَذِهِ لَيْلَةُ عَرَفَةَ وَإِنَّمَا كُنْتُ تَمَتَّعْتُ بِعُمْرَةٍ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَمْسِكِي عَنْ عُمْرَتِكِ»، فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا قَضَيْتُ الحَجَّ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ لَيْلَةَ الحَصْبَةِ، فَأَعْمَرَنِي مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي نَسَكْتُ ‘‘

ترجمہ:حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں احرام باندھا، اور میں اُن لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا اور ہدی نہیں لائے  تھے ۔پھر مجھے لگا کہ میں ایام سے ہوگئی ہوں اور میں پاک نہ ہو سکی،یہاں تک کہ یومِ عرفہ کی رات آ گئی۔تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آج عرفہ کی رات ہے اور میں نے تو عمرے کا احرام باندھا  ہے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  آپ سے فرمایا: اپنے بال کھول لو اور کنگھی کرو اور  اپنے عمرے کو  چھوڑ دو"۔تو میں نے ایسا ہی کیا۔پھر جب میں نے حج مکمل کر لیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھائی )عبدالرحمٰن کو حصبہ کی رات  حکم دیا (   کہ وہ مجھے تنعیم لے جاکر وہاں سے عمرہ کروائیں )پس انہوں نے مجھے وہاں سے عمرہ کروایا اس عمرہ کے بدلے جس کا میں نے احرام باندھا تھا (اور ادا نہیں کر سکی تھی)۔ (صحیح البخاری،جلد1 ،صفحہ70،رقم الحدیث:316،دار طوق النجاۃ)

’’التوضیح لشرح الجامع الصحیح‘‘ اور’’ شرح صحیح  البخاری لابن بطال‘‘ میں ہے:

’’ وقوله عليه السلام: (انقضى رأسك وامتشطى، وأَهلِّى بالحج ودعى العمرة) احتج به الكوفيون فقالوا: إن المعتمرة إذا حاضت قبل الطواف، وضاق عليها وقت الحج رفضت عمرتها وألقتها واستهلت بالحج، وعليها لرفض عمرتها دم، ثم تقضى عمرة بعد‘‘

ترجمہ:اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: ’’اپنے بال کھول دو اور کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھو اور عمرہ چھوڑ دو‘‘تو اس سے کوفیوں نے استدلال کیا اور فرمایا کہ عمرے کا احرام باندھنے والی عورت  اگر طواف سے پہلے حائضہ ہوجائے ، اور اس  پرحج کا وقت تنگ ہو جائے، تو وہ اپنے عمرے کو  چھوڑ دے گی  اور اسے ترک کر دے گی اور حج کا احرام باندھ لے گی، اور اس پر  عمرہ کو چھوڑنے کی وجہ سے  دم لازم ہوگا ، پھر وہ  بعد میں  عمرہ کی قضا کرے گی۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح، جلد11، صفحہ194،مطبوعہ دمشق)(شرح صحیح البخاری لابن بطال، جلد4،صفحہ230،مطبوعہ ریاض)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری  میں ہے:

’’  أن ظاهر قولها يا رسول الله هذه ليلة عرفة إلى آخره يدل على أنه عليه الصلاة والسلام أمرها برفض عمرتها وأن تخرج منها قبل تمامها وفي التوضيح وبه قال الكوفيون في المرأة تحيض قبل الطواف وتخشى فوات الحج أنها ترفض العمرة‘‘

ترجمہ: اس قول کا ظاہر کہ ’’یا رسول اللہ! یہ عرفہ کی رات  ہے‘‘ سے آخر تک اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  عمرہ چھوڑدینے کا حکم دیا اور یہ کہ  وہ اس کے مکمل کرنے سے پہلے اس  کے احرام سے نکل جائیں۔اور توضیح میں ہے کہ اسی  قول کی وجہ سے کوفیوں نے ایسی عورت کے متعلق فرمایا   کہ  جسے عمرے کے طواف سے پہلے حیض آجائے اوروہ  حج کے  فوت ہونے کا  خوف کرے ،تو وہ عمرہ چھوڑ دے۔ (عمدۃ القاری،جلد3،صفحہ289،دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

فتاوی حج و عمرہ میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد  فرمایا:’’حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں عورت عمرہ چھوڑ دے گی اور حج فوت ہونے کے خوف کی وجہ سے عمرہ کا احرام کھول دے گی اور حج کا احرام باندھے گی۔۔۔اور اِس صورت میں عورت پر چھوڑے ہوئے عمرے کی قضا لازم ہو گی اور حدیث عائشہ میں مذکور ہے کہ آپ نے حج سے فارغ ہو کر اس عمرہ کی قضا کی۔ (مزید اسی  جواب میں فرمایا )متمتع یا قارن عمرہ نہ کر پائے اور حج ادا کرے، تو اُس پر سے حجِ متمتع یا قران کا دَم شکر جسے لوگ حج کی قربانی کہتے ہیں جو متمتع اور قارن دونوں پر واجب ہوتی ہے وہ ساقط ہو جاتی ہے اور اس پر عمرہ کی قضا اور عمرہ چھوڑنے کی وجہ سے دَمِ جبر لازم آتا ہے اور دَم جبر کے جانور کا سرزمین حرم پر ذبح کرنا واجب ہے اور اس کے لئے افضل دن یوم نحر ہے اور امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جب نسوانی عارضہ کی وجہ سے عمرہ چھوڑا ،تو آپ پر سے دَم شکر ساقط ہو گیا اور عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد عمرہ ادا کیے بغیر احرام کھولنے پر دَم جبر لازم آیا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر ازواج مطہرات کے دَم شکر کے ساتھ ادا فرمایا۔‘‘ (فتاوی حج و عمرہ ،حصہ6،صفحہ80-83،جمعیت اشاعت اھلسنت پاکستان)

عمرے کے احرام کو ختم کرنےکے لیےصرف رفض کی نیت ضروری ہے،بالوں کو کھولنا  یا  کنگھی وغیرہ کرنا ضروری  نہیں،چنانچہ  عمدۃ القاری ہی میں ہے:

’’ أن المراد بالنقض والامتشاط تسريح الشعر لغسل الإهلال بالحج ولعلها كانت لبدت رأسها ولا يتأنى إيصال الماء إلى البشرة مع التلبيد إلا بحل الظفر والتسريح‘‘

ترجمہ: سر کو کھولنے اورکنگھی کرنےسے  مراد حج کے احرام کے لیے غسل کرنے میں بالوں کو سلجھانا ہے ۔ اور شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بال  چپکائے  ہوئے ہوں،اور بالوں کو  چپکانے کے ساتھ بالوں کو ناخنوں  سے کھولے اور بالوں کو سلجھائے بغیر پانی   کاکھال تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ (عمدۃ القاری، جلد3، صفحہ 289،دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

لباب المناسک اور اس کی شرح میں ہے:

’’(وکل من علیہ الرفض)أی رفض حجۃ أو عمرۃ(یحتاج الی نیۃ الرفض)‘‘

ترجمہ:اور ہر وہ شخص جس پر حج یا عمرہ کو چھوڑ دینا (یعنی توڑ دینا) لازم ہو گیا ہو، تو  اس کے لیے نیتِ رفض (یعنی چھوڑنے کی نیت)  کرنا ضروری ہوگا۔(لباب المناسک مع شرحہ،صفحہ328،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-714

تاریخ اجراء: 20 شوال المکرم1446ھ/19 اپریل 2025ء