
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0434
تاریخ اجراء:06 ربیع الثانی 1446 ھ/ 10 اکتوبر 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ ایک شخص اس سال حج پر گیا تھا اس نے حج کے بقیہ ارکان اور واجبات تو مکمل ادا کیے البتہ کسی وجہ سے طوافِ رخصت کیے بغیر اپنے ملک واپس آگیا۔ اب اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا اس پر کفارہ وغیرہ لازم ہوگا؟
نوٹ: اس نے طوافِ زیارت کے بعد کسی قسم کا کوئی طواف ادا نہیں کیا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آفاقی یعنی وہ لوگ جو میقات کی حدود سے باہر دنیا کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں، ان پر طوافِ زیارت کے بعد واجب ہے کہ جب اپنے وطن واپسی کا ارادہ کریں تو طواف رخصت ادا کریں اسے طوافِ صدر و طوافِ وداع بھی کہتے ہیں ۔
لہٰذا سوال میں مذکور شخص نےجب طوافِ زیارت کے بعد کسی قسم کا کوئی طواف ادا نہ کیا، اور اپنے ملک واپس چلا گیا تو اب اسے اختیار ہے کہ یا تو میقات سے عمرے کا احرام باندھ کر واپس آئے اور عمرہ اد اکرکے پھر طوافِ رخصت ادا کرے، ایسی صورت میں اس پر دم وغیرہ کچھ بھی لازم نہیں، یا پھر نہ لوٹے بلکہ اس طوافِ رخصت کے بدلے دم دیدے، اور یہ دم دینا واجب ہوگا،اور بہتر یہ ہے کہ واپس لوٹنے کی بجائے دم ادا کردے اور یہ دَم حدودِ حرم ہی میں ادا ہوگا۔
طوافِ رخصت کے وجوب اور اس کی ادائیگی کے بغیر میقات عبور کرنے والے کے متعلق ملک العلماء أبو بكر بن مسعود الكاسانی بدائع الصنائع میں تحریر فرماتے ہیں: ”فطواف الصدر واجب عندنا۔۔ أما شرائط الوجوب فمنها أن يكون من أهل الآفاق فليس على أهل مكة، و لا من كان منزله داخل المواقيت إلى مكة طواف الصدر۔۔ منھا أن يكون بعد طواف الزيارة۔۔ فإن نفر و لم يطف ۔۔۔ إن جاوز الميقات لا يجب عليه الرجوع؛ لأنه لا يمكنه الرجوع إلا بالتزام عمرة بالتزام إحرامها ثم إذا أراد أن يمضي مضى، و عليه دم، و إن أراد أن يرجع أحرم بعمرة ثم رجع، و إذا رجع يبتدئ بطواف العمرة ثم بطواف الصدر، و لا شيء عليه لتأخيره عن مكانه، و قالوا الأولى أن لا يرجع، و يريق دما مكان الطواف؛ لأن هذا أنفع للفقراء، و أيسر عليه لما فيه من دفع مشقة السفر، و ضرر التزام الإحرام“ ترجمہ: ہماری رائے کے مطابق طواف صدر واجب ہے۔۔ اس کے وجوب کی شرائط میں سےایک شرط یہ ہےکہ یہ آفاقی پر واجب ہے تو اہل مکہ اور جو مکہ کے دامن میں میقات کی حدود کے اندر رہتے ہیں ان پر طواف صدر واجب نہیں۔۔ ایک شرط یہ بھی ہے کہ طواف صدر طوافِ زیار ت کے بعد ہو۔۔ تو اگر کوئی طواف صدر کیے بغیر ہی وطن کی طرف کوچ کرجائے۔۔۔ اگر میقات عبور کرلیا تو اب اس پر لوٹنا واجب نہیں کہ اب عمرہ اور اس کے احرام کا التزام کیے بغیر لوٹنا ممکن نہیں رہا، پھر اگر سفر جاری رکھنے کا ارادہ ہے تو جاری رکھے اور اس پر ایک دم واجب ہے، اور اگر واپس لوٹنے کا ارادہ ہے تو عمرے کا احرام باندھے پھر لوٹے اور جب لوٹے تو پہلے عمرے کا طواف ادا کرے پھر طواف صدر کرے، اور اس صورت میں طواف صدر کو اس کے اصل مقام سے جو مؤخر کیا اس کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں، فقہاء فرماتے ہیں کہ اولٰی یہ ہے کہ نہ لوٹے اور طواف کےبدلے دم ادا کردے کہ ایک تو یہ فقراء کےلیے نفع بخش ہے اور خود اس پر بھی دوبارہ سے احرام کے التزام اور سفر کی مشقت نہ اٹھانے کی وجہ سے آسان ہے۔(البدائع الصنائع، ج 2، ص 142، 143، دار الكتب العلميہ)
بہار شریعت میں ہے: ”جب ارادہ رخصت کا ہو طوافِ وداع بے رَمَل و سعی و اِضطباع بجا لائے کہ باہر والوں پر واجب ہے۔۔۔ جو بغیر طوافِ رخصت کے چلا گیا تو جب تک میقات سے باہر نہ ہوا واپس آئے اور میقات سے باہر ہونے کے بعد یاد آیا تو واپس ہونا ضرور نہیں بلکہ دَم دیدے اور اگر واپس ہو تو عمرہ کا احرام باندھ کر واپس ہو اور عمرہ سے فارغ ہوکر طوافِ رخصت بجا لائے اور اس صورت میں دَم واجب نہ ہوگا۔(بھار شریعت، ج 1، حصہ 6، ص 1151، 1152، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا 65 سال کی بیوہ بھی بغیر محرم کے عمرے پر نہیں جاسکتی؟
کسی غریب محتاج کی مددکرناافضل ہے یانفلی حج کرنا؟
کمیٹی کی رقم سے حج وعمرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
عورت کا بغیر محرم کے عمرے پر جانے کا حکم؟
ہمیں عمرے پر نمازیں قصرپڑھنی ہیں یا مکمل؟
جومسجد نبوی میں چالیس نمازیں نہ پڑھ سکا ،اسکا حج مکمل ہوا یانہیں؟
جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو جائے تو کیا اسے حج بدل کروانا ضروری ہے؟
کیا بطور دم دیا جانے والا جانور زندہ ہی شرعی فقیر کو دے سکتے ہیں؟