
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کمیٹی (B.C) جمع کرنے والا یہ شرط لگا سکتا ہے کہ جو شخص تاخیر سے کمیٹی کی قسط جمع کروائے گا وہ اس تاخیر کی بنا پر اضافی پیسے بھی دے گا؟سائل: فاروق رشید
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کمیٹی جمع کرنے والے کا یہ شرط لگانا کہ جو شخص تاخیر سے کمیٹی کی قسط جمع کروائے گا وہ اس تاخیر کی بنا پر اضافی پیسے بھی دے گا، ناجائز و حرام ہے کیونکہ اگر قسط جمع کروانے والے کی کمیٹی اب تک نہیں کھلی تو اس صورت میں وہ مقروض نہیں ہے لہذا تاخیرکی بنا پر اس سے اضافی پیسے لینا مالی جرمانہ ہے جو کہ ناجائز و گناہ ہے ۔ اور اگر اس شخص کی کمیٹی کھل چکی ہے اور اس پر بقیہ قسطیں باقی ہیں تو اس صورت میں وہ مقروض ہے لہذا کمیٹی جمع کرنے والے کا تاخیر کی بنا پر اس شخص سے اضافی پیسے لینا سود ہے جوکہ سخت ناجائز و حرام ہے ۔
قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر اضافی پیسے لینا سود ہے چنانچہ مبسوط میں ہے:
”مقابلة الأ جل بالدراهم ربا، ألا ترى أن في الدين الحال لو زاده في المال ليؤجله لم يجز“
یعنی : مدت کے مقابلے میں دراہم لینا سود ہے ،کیا تو نہیں دیکھتا کہ جس قرض کی ادائیگی کی مدت پوری ہو چکی ہو ، اس میں اگر مدیون نے مال میں زیادتی کردی تاکہ دائن اسے ادائیگی کی مزید مہلت دے دے تویہ جائز نہیں ہے۔(المبسوط،جلد13،صفحہ126 ،مطبوعہ بیروت)
النتف فی الفتاوی میں ہے:
” ان يبيع رجلا متاعا بالنسيئة فلما حل الاجل طالبه رب الدين فقال المديون زدني في الاجل ازدك في الدراهم ففعل فان ذلك ربا“
یعنی: کسی شخص کو ادھار سامان بیچا ، جب ادھار کی مدت پوری ہوگئی اور دائن نے مدیون سے دَین کا مطالبہ کیا تو مدیون نے کہا کہ مجھے مزید مہلت دے دو میں دراہم کی تعداد بڑھا دوں گا اور دائن نے اس کو قبول کر لیا تو یہ زیادتی سود ہے۔(النتف فی الفتاوی ،صفحہ 485،مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت)
مالی جرمانہ اسلام میں منسوخ ہو چکا ہے چنانچہ بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:
’’التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام، ثم نسخ ‘‘
یعنی:مالی جرمانہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا، پھر منسوخ ہوگیا۔(بحرالرائق ،جلد5،صفحہ44،مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی ، بیروت)
رد المحتارمیں ہے:’’التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ و الحاصل ان المذھب عدم التعزیر باخذ المال‘‘ یعنی: مالی جرمانہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا، پھر منسوخ ہوگیا اور حاصل یہ ہے کہ مذہب کی رو سے مالی جرمانہ نہیں لیا جا سکتا ۔(ردالمحتار،جلد4، صفحہ 61،مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’تعزیر بالمال منسوخ ہےاور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔(فتاوی رضویہ،جلد5،صفحہ111،مطبوعہ رضافاونڈیشن ، لاھور)
مالی جرمانہ جائز نہیں چنانچہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقارالدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” سوال میں جو صورت بعد میں لکھی ہے کہ اگر وہ لیٹ کریں ، تو دو فیصد یا چار فیصد جرمانہ لیا جائے گا ، یہ ناجائز ہے ۔ شریعت میں مال پر جرمانہ جائز ہی نہیں ہے ۔ “(وقار الفتاوی ،جلد3 ، صفحہ264 ، بزم وقار الدین کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0448
تاریخ اجراء: 05رجب شریف 1446ھ/06جنوری2025ء