زکوٰۃ اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کا شرعی حکم

بجلی کا بل ادا کرنے پر زکوۃ ادا ہونے کی صورت

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے  کےبارےمیں کہ بکرمستحق ِزکوۃ ہے، اگرزید، بکر کے گھر کی بجلی کا بل آن لائن ادا کر دے  تو کیا زید کی زکوۃ ادا ہو جائے گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر زید،بکرکے ذمہ لازم بجلی کے بل کی ادائیگی بکر کی اجازت  سےکرے تو زید کی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔اس لیے کہ مدیون یعنی مقروض شرعی فقیرکی اجازت سے زکوۃ کی رقم دائن کو اداکی جائے،توزکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے،اور ساتھ ہی مقروض کی ذمہ داری بھی ختم ہوجاتی ہے۔

لہٰذا جب بکر بجلی استعمال کرکے کمپنی کا مقروض بن چکاہو،اور وہ زید کو اجازت دے دے کہ وہ اس کا واجب الادابل ادا کردے،تو ایسی صورت میں زیدکےبل جمع کروانے سے زیدکی زکوۃ اداہوجائے گی اور بکرکے ذمہ سے وہ واجب الادا  بل بھی ساقط ہوجائے گا۔ ہاں اگر بکر سے اجازت لیے بغیر زیدنے بجلی  کابل  ادا کیاتواس صورت میں زیدکی زکوۃ ادا نہ ہوگی۔

شرعی فقیر  کی اجازت سے اس کا دَین ادا کرنا، جائز ہے۔ چنانچہ اس کے متعلق در مختار میں ہے:

’’دین الحي الفقير فيجوز لو بأمره‘‘

یعنی: زندہ فقیرِشرعی کی اجازت سےاس کا دَین ادا کر دیاتو جائز ہے۔

مذکورہ عبارت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ، ردالمحتارمیں فرماتے ہیں:

”( فیجوز لو بامرہ)ای یجوز عن الزکاۃ علی انہ تملیک منہ والدائن یقبضہ بحکم النیابۃ عنہ ثم یصیر قابضا لنفسہ“

یعنی:فقیرِ شرعی کی اجازت سے اس کا دَین ادا کرنا، جائزہےیعنی زکوۃ کے طور پر جائز ہوجائے گااس بناء پر کہ زکوۃ دینے والےکی طرف سے مالک بنانا پایا گیا اور قرض خواہ نیابت کے طور پر پہلے مقروض کی طرف سے قبضہ کرے گا،پھر اپنی طرف سے قبضہ کرنے والا ہوگا۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد3، صفحہ342، مطبوعہ کوئٹہ)

بحر الرائق میں ہے:

’’لو قضى دين الحي۔۔۔ إن قضاه بأمره جاز، ويكون القابض كالوكيل له في قبض الصدقة كذا في غاية البيان وقيده في النهاية بأن يكون المديون فقيرا‘‘

یعنی:اگر کسی نےزندہ شخص کا دَین مالِ زکوۃ سے ادا کر دیا۔۔۔اگر اس کی اجازت سے ادا کیا تو جائز ہے (یعنی زکوۃ ادا ہوجائے گی)اور قبضہ کرنے والا یعنی قرض خواہ، مقروض کی طرف سے صدقہ میں قبضہ کے وکیل کی طرح ہوگا، یونہی غایۃ البیان میں ہےاور نہایہ میں قید ذکر کی  ہے کہ مقروض فقیرِ شرعی ہو۔(ملتقطا،البحر الرائق،جلد 2 ،صفحہ 261 ، مطبوعہ دار الكتاب الإسلامي)

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”زکوۃ کا رکن تملیکِ فقیر  یعنی فقیر کو مالک بنانا  ہے۔جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو،کیسا ہی کارِ حَسن ہو جیسے تعمیرِمسجد یا تکفینِ میت یا تنخواہِ مدرسان ِعلمِ دین ، اس سے زکوۃ نہیں ادا ہوسکتی۔“(فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ 269، رضا فاؤنڈیشن  لاہور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارشریعت میں فرماتے ہیں:”فقیر پردَین (قرض) ہے، اس کے کہنے سے مالِ زکاۃ سے وہ دَین ( قرض ) ادا کیا گیا ،زکوۃ ادا ہوگئی۔“(بہارشریعت،جلد1،صفحہ927، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-608

تاریخ اجراء:02ذوالحجۃ الحرام1446ھ/30مئی2025ء