نامکمل دکان پر ماہانہ کرایہ لینے کا حکم

بکنگ کے بعد دکان کا  قبضہ نہ ملے تو ماہانہ کرایہ لینے کا حکم

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  میں نے ایک پلازہ میں اپنے لئے ایک دکان بک کی تھی اور  میں پیمنٹ بھی کرچکا ہوں  ۔  اب  معاہدہ کے مطابق دکان پر قبضہ دینے کا وقت آیا تو ابھی تک دکان نہیں بنی ، تھوڑا بہت کام ہوا ہے لیکن بالکل بھی قابل استعمال نہیں  جس کی وجہ سے قبضہ نہیں ملا ۔ اب بلڈ ر کو قبضہ دینے کا کہا اور اس پر زور ڈالا تو وہ  کہہ رہا کہ  جب تک دکان کا قبضہ نہیں مل جاتا ہر ماہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے  مجھ سے کرایہ لیتے رہو ۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ جب تک مجھے دکان بنا کر قبضہ نہ دے دے کیا میں کرایہ کی مد میں بلڈر سے پیسے لے سکتا ہوں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں بلڈر  سے  وقت  پر دکا ن بناکر نہ دینے کی وجہ سے کرایہ کے نام پر پیسے  لینا جائز نہیں۔نہ ہی یہاں کرایہ کی کوئی گنجائش ہے  کیونکہ کرایہ کسی چیز  کے استعمال کرنے پر ہوتا ہے۔  یہاں تو نہ مذکورہ دکان اس قابل ہے  کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے،  نہ ہی بلڈر کا مقصود ہے۔ کسی بھی مالی آمدنی کے لئے شرعی سبب پایا جانا ضروری ہے جبکہ یہاں کرایہ کے نام پر رقم لینا شرعی سبب نہیں ہے۔

تفصیل مسئلہ :

تفصیل مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت  میں رشوت کا پہلو پایا جارہا  ہےکیونکہ  بلڈر کو وقت پر خریدار کے  قبضہ میں  دکان دینا لازم تھا  ،اب بلڈر کسی وجہ سے دکا ن  پر قبضہ نہیں دے سکا ۔تو ایسی صورت میں بلڈر کا خریدار کو کرایہ کے نام پر رقم لینے کی آفر کرنا یہ اپنی عزت بچانے کی خاطر ہے تاکہ مارکیٹ میں خود اس  بلڈر کی اور اس  کے  پروجیکٹس کی ویلیو برقرار رہے ،اور یہی رشوت ہے لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ رقم کا لین دین کرنا ، ناجائز وحرام اور کسی مسلمان کا باطل طریقے سے مال کھانا ہے۔

یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب بلڈر اپنے طور پر یہ آفر کرے لیکن اگر بلڈر خود سے آفر نہیں کرتا بلکہ خریدار کی طرف سے مذکورہ رقم لینے کا مطالبہ ہے تو پھر یہ تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانہ  ہے، اس طرح کہ بلڈر کی طرف سے وقت پر دکان کا قبضہ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے خریدار بلڈر سے رقم  کا مطالبہ کرہا ہے ،اور تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانہ لینا جائزنہیں ہے۔

ہاں اتنا ضرور ہے کہ مقررہ تاریخ تک  بلڈر پر دکان کا قبضہ دینا شرعا لازم تھا ، بلاوجہ شرعی اس طرح کرتا ہے تو ایسا کرنا درست نہیں۔ اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کرتا ہے تو بلڈر کو مہلت دی جائے گی ۔

باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھانے کی ممانعت سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:

”یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ‘‘

 ترجمہ کنز  الایمان:اے ایمان والو!  آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔(پارہ 5،سورۃ النساء، آیت  29)

اس آیت کے تحت تفسیر ابی السعود میں ہے:

’’والمراد بالباطل ما یخالف الشرع کالغصب  والسرقۃ والخیانۃ والقمار وعقود الربا وغیر ذلک مما لم یبحہ الشرع، ای لایاکل بعضکم اموال بعض بغیر طریق شرعی‘‘

 ترجمہ:(مذکورہ آیت میں باطل سے مراد) ہر وہ طریقہ ہےجو شریعت کے مخالف ہو جیسے غصب، چوری، خیانت، جوئے، سودی لین دین اور اس کے علاوہ ہر اس طریقے سے مال حاصل کرنا جس کو شریعت نے حلال  قرار نہ دیا ہو،(آیت کامعنی یہ ہےکہ )تم میں کوئی بھی کسی کا مال شرعی طریقے کے بغیر حاصل نہ کرے۔(تفسیر ابی السعود، جلد2، صفحہ170، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

حدیث پاک میں ہے:

”عن عبد الله بن عمرو قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشی والمرتشی“

ترجمہ:حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔(سنن ترمذی،جلد 3،صفحہ615، مطبوعہ مصر)

اپناکام نکلوانےکےلیےکسی کوکچھ دینا رشوت ہے۔ چنانچہ بحر الرائق میں ہے:

”ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد“

ترجمہ:رشوت یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو کچھ دےتاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یااپنی منشاءپوری کرنے پر ابھارے۔ ( بحر الرائق ،جلد6،صفحہ 285،دار الکتاب الاسلامی )

سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :” رشوت لینا مطلقاً حرام ہے،  کسی حالت میں جائزنہیں۔ جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے رشوت ہے یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے،  رشوت ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد 23،صفحہ597، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

 ”والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال“

 ترجمہ: حاصل یہ ہے کہ مذہب میں تعزیر باخذ المال (یعنی مالی جرمانہ لینا) جائز نہیں ہے۔(رد المحتار، جلد 4، صفحہ 62، دار الفکر، بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔ درمختار میں ہے:

’’لا باخذ مال فی المذھب ‘‘

ترجمہ :مال لینے کا جرمانہ مذہب کی رو سے جائز نہیں ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد5،صفحہ111، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب :ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر :IEC-525

تاریخ اجراء :19رمضان المبارک1446ھ/20مارچ2025ء