
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض اوقات کوئی چیز فروخت کرنے کے بعد وہی چیز واپس خریدنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے اس کی جائز و ناجائز صورتیں کون سی ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کوئی چیز بیچنے کے بعد خریدار سے وہی چیز واپس خریدنے کی ابتدائی طور پر دو صورتیں ہیں:
(1) پہلے سودے کی مکمل قیمت وصول ہونے سے پہلے خریدنا۔
(2)پہلے سودے کی مکمل قیمت وصول ہوجانے کے بعد خریدنا۔
پھر ان دونوں صورتوں کی مزید تین تین صورتیں ہیں۔ اگرچہ ان کے تحت ضمناً مزید صورتیں بھی ممکن ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ چھ صورتیں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلے سودے کی مکمل قیمت وصول ہونے سے پہلے دوسرا سودا کرنا:
(1) پہلا سودا جس قیمت پر ہوا ، سودے کی مکمل قیمت وصول ہونے سے پہلے اس سے کم قیمت میں خریدنا، ناجائز ہے، اگرچہ اس وقت مارکیٹ ریٹ کم ہوگیا ہو۔ ہاں اگر ثمن کی جنس بدل جائے یا مبیع میں عیب کی وجہ سے قیمت میں کمی ہوجائے تو کم قیمت میں خریدنا بھی جائز ہے۔
(2) پہلا سودا جس قیمت پر ہوا، سودے کی مکمل قیمت وصول ہونے سے پہلے اتنی ہی قیمت میں خریدنا، جائز ہے۔ ہاں اگر پہلے نقد میں بیچا اور پھر اتنی ہی قیمت میں ادھار پر خریدلیا تو ناجائز ہے۔اسی طرح اگر پہلے کم مدت کے ادھا رپر بیچا اور پھر اتنی ہی قیمت میں زیادہ مدت کے ادھار پر خریدلیا تو بھی ناجائز ہے۔
(3) پہلا سودا جس قیمت پر ہوا، سودے کی مکمل قیمت وصول ہونے سے پہلے اس سے زائد قیمت میں خریدنا، جائز ہے۔
پہلے سودے کی مکمل قیمت وصول ہونے کے بعد دوسرا سودا کرنا:
(4) پہلا سودا جس قیمت پر ہوا، اس سے کم قیمت میں خریدنا،جائز ہے۔
(5) پہلا سودا جس قیمت پر ہوا، اتنی ہی قیمت میں خریدنا، جائز ہے۔
(6) پہلا سودا جس قیمت پر ہوا، اس سے زائد قیمت میں خریدنا، جائز ہے۔
مذکورہ احکام سے متعلق جزئیات:
ہدایہ میں ہے:
’’و من اشتری جاریۃ بالف درھم حالّۃ او نسیئۃ فقبضھا ثم باعھا من البائع بخمس مائۃ قبل ان ینقد الثمن لا یجوز البیع الثانی‘‘
ترجمہ :کسی نے ایک ہزار دراہم کی باندی نقد یا اُدھا رمیں خریدی اور اس پر قبضہ بھی کرلیا، پھر اس کو ثمن ادا کرنے سے پہلے ہی بائع کو پانچ سو دراہم میں بیچ دیا تو یہ دوسری بیع جائز نہیں۔(ھدایہ آخرین، صفحہ 59، مطبوعہ لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے: ’’جس چیز کو بیع کردیا ہے اور ابھی ثمن وصول نہیں ہوا ہے اس کو مشتری سے کم دام میں خریدنا، جائزنہیں اگرچہ اس وقت اس کا نرخ کم ہوگیا ہو۔‘‘(بہارِ شریعت، جلد 2، صفحہ 708، مکتبۃ المدینہ)
عالمگیری میں ہے:
”ولواشتری بجنس آخراوبعدماتعیب یجوز“
ترجمہ: اگر کسی اور جنس کے بدلے میں خریدا یا مبیع میں عیب پیدا ہوگیا تو جائز ہے۔(عالمگیری ، جلد 3، صفحہ 132،مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے:” اگر ثمن دوسری جنس کا ہو یا مبیع میں نقصان ہوا ہو تو مطلقاً بیع جائز ہے۔ “(بہارِ شریعت، جلد 2، صفحہ 708، مکتبۃ المدینہ)
فتح القدیر میں ہے:
’’بمثل الثمن أو أکثر جاز‘‘
ترجمہ: پہلے والی قیمت پر یا اس سے زیادہ میں بیچنا جائز ہے۔(فتح القدیر، جلد 6، صفحہ 397، مطبوعہ بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے: ’’مشتری سے اسی دام میں یا زائد میں خریدی یا ثمن پر قبضہ کرنے کے بعد خریدی یہ سب صورتیں جائز ہیں۔‘‘(بہارِ شریعت، جلد2، صفحہ 708، مکتبۃ المدینہ)
پہلے نقد اور پھر ادھار سودے والی صورت بیان کرتے ہوئے محیط برہانی میں ہے:
”ولا يجوز أن يبيع سلعة بثمن حال، ثم يشتريها بذلك الثمن إلى أجل لأن هذا في معني شراء ما باع بأقل مما باع لأن الأجل يمكن نقصانا في المالية لأن المؤجل أنقص من الحال “
ترجمہ: نقد میں سامان بیچ کر اسی قیمت میں ادھار پر خریدلینا جائز نہیں، یہ بھی بیچی ہوئی چیز کو کم قیمت میں خریدنے کے معنی میں ہےکیونکہ ادھار خریداری نقد خریداری سےکم نفع مند ہونے کی وجہ سے ادھار خریداری مالیت میں کمی کا باعث بنتی ہے ۔(محیط برھانی ،جلد6،صفحہ 388، بیروت)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
”لایجوزان یبیع سلعۃ بثمن حال ثم یشتریھابذلک الثمن الی اجل و لو باعہ بالف درھم نسیئۃ الی سنۃ ثم اشتراہ بالف درھم الی سنتین لا یجوز وإن زاد على الثمن درهما أو أكثر جاز وتجعل الزيادة في الثمن الثاني بمقابلة النقصان المتمكن بزيادة الأجل فينعدم النقصان “
یعنی:کوئی چیز نقد میں بیچ کر پھر اسے ادھار میں خرید لیا تو یہ جائز نہیں۔ اگر ایک ہزار درہم میں ایک سال کے اُدھار پر بیچی پھر وہی چیز ایک ہزار درہم میں ہی دو سال کے اُدھار پر خریدلی تو بھی جائز نہیں۔ ہاں اگر دوسرے سودے میں ایک درہم یا اس سے زائد کا اضافہ کردیا تو پھر جائزہے کیونکہ دوسرے سودےمیں کیا جانے والا اضافہ مدت بڑھانے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے مقابلے میں آجائے گا اور یوں کم قیمت میں خریدنے کا حکم ختم ہو جائے گا ۔(فتاویٰ عالمگیری ،جلد 3،صفحہ 133، مطبوعہ پشاور)
بہارِ شریعت میں ہے: ’’اگر اتنے ہی میں خریدی مگر پہلے ادائے ثمن کی کوئی میعاد مقرر نہ تھی اور اب میعاد مقرر ہوئی یا پہلے ایک ماہ کی تھی اب دو ماہ کی میعاد مقرر کی یہ بھی ناجائز ہے۔‘‘(بہارِ شریعت، جلد 2، صفحہ 708، مکتبۃ المدینہ)
عالمگیری میں ہے :
”لوقبض الثمن ثم اشتراہ باقل جاز“
ترجمہ:اگربائع نے ثمن پرقبضہ کرلیاپھر کم قیمت پر خریدا تو جائزہے ۔ (عالمگیری ،جلد 3، صفحہ 132،مطبوعہ کوئٹہ)
درمختارکی عبارت قبل نقدکل الثمن الاول کے تحت ردالمحتارمیں فرمایا:
”قیدبہ لان بعدہ لافساد“
ترجمہ: مصنف نے پہلے والے ثمن کی ادائیگی سے قبل کی قیداس لیے لگائی ہے کیونکہ مکمل ثمن کی ادائیگی کے بعد خریدنے میں کوئی فسادنہیں۔ (ردالمحتار،جلد 7، صفحہ 268،مطبوعہ کوئٹہ )
واضح رہے کہ پہلے سودے کی مکمل قیمت وصول ہونے سے پہلے دوسرا سودا کرنے کی جو ناجائز صورتیں اوپر بیان کی گئی ہیں، یہ اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک پہلے سودے کی مکمل قیمت ادا نہ کردی جائے۔اگر ایک روپیہ بھی باقی ہو تو عدمِ جواز برقرار رہے گا۔
جیساکہ علامہ شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں:
”ولایجوزقبل النقدوان بقی درھم“
ترجمہ: (مکمل قیمت کی )ادائیگی سے قبل دوسرا سودا جائز نہیں چاہے ایک درہم ہی ادا کرنا باقی ہو۔ (ردالمحتار، جلد 7، صفحہ 268، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مصدق:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
مجیب:سید مسعود علی عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0570
تاریخ اجراء:25جماد ی الاخری 1445 ھ/ 08جنوری 2024 ء