دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نےکچھ عرصہ اس طرح کام کیا کہ میں منقولی اشیاء کو خریدتا اور قبضہ میں آنے سے پہلے ہی یا قبضہ کئے بغیر اس چیز کو بیچ دیا کرتا تھا۔ مجھے مسئلہ کچھ ماہ پہلے معلوم ہوا اور اب میں توبہ بھی کرچکا ہوں اور اب اس طرح کا سودا نہیں کرتا۔ لیکن یہ ارشاد فرمائیں کہ میں نے جو پہلے ناجائز سودے کیے اور اس سے مجھے نفع ہوا تو کیا وہ میرے لئے حلال ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی اصولوں کے مطابق منقولی چیز کو خرید کر قبضہ کرنے سے پہلے بیچنا ناجائز و گناہ ہے اور ایسا کرنا بیع کو فاسد کردیتا ہے ۔ جب تک مبیع مشتری کے پاس ہو ، ایسی بیع فاسد کو فسخ کرنا عاقدین پر واجب ہے۔لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جتنی بیوع کو فسخ کرنا ممکن ہو ان کو فسخ کیا جائے لیکن اگر بیع کو فقہی طور پر فسخ کرنا کسی بھی طرح ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں بائع (جو کہ مسئولہ صورت میں سائل ہے )مشتری سے مبیع فاسد کی صرف قیمت یعنی مارکیٹ ویلیو کے مطابق جو ریٹ ہے صرف وہ لے سکتا ہے۔ اب بائع اس رقم سے آگے مزید نفع حاصل کرے یا اپنے پاس رکھے، دونوں صورتوں میں اس کے لئے کسی طرح کا تصدق کرنے کا حکم نہیں۔
منقولی چیز کو قبضہ میں آنے سے پہلے بیچنا جائز نہیں،اس سے متعلق ہدایہ میں ہے:
”من اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه“
یعنی: جس نے منقولی چیزوں میں سے کوئی چیز خریدی ہو تو اس کو قبضہ کر لینے سے پہلے آگے فروخت کرنا، جائز نہیں۔(ھدایہ ،جلد 3،صفحہ 59،مطبوعہ بیروت)
بیع فاسد کوابتداءً فسخ کرنا عاقدین پر واجب ہے۔ چنانچہ در مختار میں ہے :
”يجب ( على كل واحد منهما فسخه قبل القبض ) ۔۔۔ (او بعده ما دام ) المبيع بحاله“
یعنی: بیع فاسد کو بائع ومشتری میں سے ہر ایک پر فسخ کرنا واجب ہے ، خواہ مبیع پر قبضہ ہوجانےسے پہلے یا بعد، جب تک مبیع اپنی حالت پر قائم ہو۔(مع درمختار،جلد5،صفحہ 90، دار الفکر)
بیع فاسد میں مشتری پر قیمت دینا لازم ہوتا ہے۔ چنانچہ بحر الرائق میں ہے :
”وفی الفاسد لم یملک الثمن بل تجب قیمۃ المبیع عند القبض“
یعنی: بیع فاسد میں ثمن ملکیت میں نہیں آتا بلکہ مبیع پر قبضہ ہونے کے بعد خریدار پر مبیع کی قیمت لازم ہوتی ہے۔(بحرالرائق ،جلد 6،صفحہ 106،دارالکتاب الاسلامی)
ہدایہ میں بیع فاسد کے حکم سے متعلق ہے:
”واذا قبض المشتری المبيع فی البيع الفاسد بامر البائع وفی العقد عوضان كل واحد منهما مال ملك المبيع ولزمته قيمته“
یعنی:جب خریدار بیع فاسد میں بائع کی اجازت سے مبیع پر قبضہ کرلے اور عقد میں عوضین مال ہوں تو خریدار مبیع کا مالک ہوجائے گا اوراس پر مبیع کی قیمت دینا لازم ہوگی۔
مذکورہ عبارت (ولزمته قيمته) کے تحت علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ولا يخفى ان لزوم القيمة عينا انما هو بعد هلاك المبيع فی يده، اما مع قيامه فی يده فالواجب رده بعينه“
یعنی :مخفی نہیں کہ خریدار پر مبیع کی قیمت دینا اس وقت لازم ہوگا جب مبیع خریدار کے پاس ہلاک ہوجائے ۔ اگر خریدار کے پاس چیز موجود ہو تو بعینہٖ اس مبیع کو لوٹانا ہی واجب ہے ۔(فتح القدیر شرح الہدایہ ،جلد 6،صفحہ 459،مطبوعہ بیروت)
بیع فاسد میں بائع کو جو نفع حاصل ہو وہ بائع کے لئے حلال ہے۔ درمختار میں ہے :
”انما( طاب للبائع ما ربح )فی الثمن“
یعنی: بیع فاسد میں بائع کے لئے قیمت لے کر جو نفع ہو وہ حلال ہے۔
ردالمحتار میں ہے :
” (وطاب للبائع ما ربح لا للمشتری) صورة المسألة ما ذكره محمد في الجامع الصغير : رجل اشترى من رجل جارية بيعاً فاسداً بألف درهم وتقابضا وربح كل منهما فيما قبض يتصدق الذي قبض الجارية بالربح ويطيب الربح للذي قبض الدراهم“
یعنی :( نفع بائع کے لئے حلال ہے نہ کہ مشتری کے لئے ) امام محمد رحمہ اللہ نے جامع صغیر میں اس مسئلے کی جو صورت ذکر کی وہ یہ ہے کہ کسی نے بیع فاسد کے طور پر ایک ہزار درہم کے بدلے ایک باندی خریدی اور عاقدین نے مبیع و ثمن پر قبضہ کرلیا اور ان دونوں میں سےہر ایک نے نفع کمایا تو جس نے باندی پر قبضہ کیا تھا وہ نفع کو صدقہ کرے گا اور جس نے درہم پر قبضہ کیا تھا اس کے لئے نفع حلال ہے۔(درمختار مع ردالمحتار ،جلد 5،صفحہ 96،دار الفکر)
ہدایہ میں ہے :
”(ومن اشتری جاریہ بیعا فاسداوتقابضا فباعھا)المشتری (وربح فیھا تصدق بالربح ویطیب للبائع ما ربح فی الثمن )“
یعنی:اگر کسی نے بیع فاسد کے طور پر باندی خریدی اور عاقدین نے باہم قبضہ کرلیا پھر خریدار نے باندی کو آگے بیچ کر نفع کمایا تو وہ نفع کو صدقہ کرے گا اور بائع کو ثمن سے جو نفع ہوا وہ حلال ہے ۔
علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ ما ربح فی الثمن کے تحت فرماتے ہیں :
” الذی قبضہ من المشتری اذا عمل فربح “
یعنی وہ ثمن جو مشتری سے ملا پھر جب اس میں تصرف کر کے نفع کمایا ۔(فتح القدیر شرح الھدایہ ،جلد6،صفحہ 473،مطبوعہ بیروت)
مفتی وقار الدین صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :”بہر صورت قبضہ سے پہلے منقولات کو فروخت کرنا بیع فاسد ہے۔اور بیع فاسد کرنے والا گناہ گارہے۔“(وقار الفتاوی ،جلد 3،صفحہ 266،مطبوعہ کراچی )
بیع فاسد کو فسخ کرنا واجب ہے، اس سے متعلق بہار شریعت میں ہے: ”بیع فاسد میں مشتری پر اولاً یہی لازم ہے کہ قبضہ نہ کرے اور بائع پر بھی لازم ہے کہ منع کردے بلکہ ہر ایک پر بیع فسخ کردینا واجب اور قبضہ کرہی لیا تو واجب ہے کہ بیع کو فسخ کرکے مبیع کو واپس کرلے یا کردے ، فسخ نہ کرنا گناہ ہے ۔“(بہار شریعت ،جلد 2،صفحہ 714،مکتبۃ المدینہ کراچی )
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”کوئی چیز معین ۔۔۔ بیع فاسد کے طور پر خریدی اور تقابض بدلین بھی ہوگیا مشتری نے مبیع سے نفع اُٹھایا۔۔۔ اور بائع نے ثمن سے نفع اُٹھایا۔۔۔ تومشتری کے لیے وہ نفع خبیث ہے، صدقہ کردے اور بائع نے ثمن سے جو نفع حاصل کیا ہے اُ س کے لیے حلال ہے ۔“ (بہار شریعت ،جلد 2،صفحہ 718،مکتبۃ المدینہ ،ملتقطا)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب :ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر : IEC-218
تاریخ اجراء : 08ذوالقعدۃالحرام1445ھ17مئی2024ء