
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا تعلق انڈیا سے ہے اور ہماری مارکیٹ میں ایسا ہوتا ہے کہ چین سے مال آتا ہے اور چین میں کسی چیزکی قیمت مثلاً 10روپے ہے ،لیکن اپنی جان پہچان سے ہمیں وہ چیز 9.5روپے میں ملی ،تو کیا کسٹمر کو ترغیب دلانے کے لئے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ چین میں اس کا ریٹ 10روپے ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے صرف اتنا ہی کہا کہ چین میں اس کا بھاؤ 10روپے ہے تو ایسا کہنا، جائز ہے کہ اس میں کوئی جھوٹ نہیں البتہ بیع مرابحہ میں جس قیمت پر چیز خریدی ، اس کو چھپانے کی اجازت نہیں ہوتی لہذا وہاں اصل قیمت ہی بتانا ہوگی۔
نوٹ:عموماً تاجر حضرات کسٹمر کو راغب کرنے کے لئے یوں کہتے ہیں کہ ’’یہ چیز مجھے اتنے میں پڑی ہے‘‘ یا ’’میری قیمت خرید اتنی ہے‘‘ اور پھر قیمت خرید بتانے میں جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں تو ایسا کرنا، جائز نہیں اور اس سے کاروبار کی برکت بھی اٹھ جاتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
’’ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ‘‘
ترجمہ کنز الایمان: اور بچو جھوٹی بات سے۔(پارہ:17، سورہ الحج،آيت:30)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدوفروخت کرنے والوں سے متعلق ارشاد فرمایا:’’ فان صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وان كتما وكذبا محقت بركة بيعهما‘‘یعنی:اگر دونوں سچ بولیں اور عیب کو بیان کر دیں، تو دونوں کے لیے خریدوفروخت میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر عیب کو چھپائیں اور جھوٹ بولیں، توان کی خریدوفروخت سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔(صحيح البخارى، ص275،مطبوعه رياض)
فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں امام اہلسنت رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’(دکاندار نے) کہا یہ چیز تین یا چار پیسے کی میری خرید ہے اور خریدی پونے چار کو تھی یا کہا خرچ وغیرہ ملا کر مجھے سوا چار میں پڑی ہے اور پڑی تھی پونے چار کو یا خرید وغیرہ ٹھیک بتائے مگر مال بدل دیا،یہ دھوکا ہے، یہ صورتیں حرام ہیں۔(فتاوی رضویہ،ج17،ص139، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
صاحب بہارشریعت مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ علیہ بیع مرابحہ کے متعلق فرماتے ہیں:”بیع مطلق اور اس(بیع مرابحہ) میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ یہاں اپنی خرید کے دام بتا کر اُتنا ہی لینا چاہتا ہے یا اُس پر نفع کی ایک معین مقدار زیادہ کرتاہے۔۔۔ چونکہ مشتری نے یہاں بائع پر اعتماد کیا ہےلہٰذایہاں بائع کو پورے طور پر سچائی اور امانت سے کام لینا ضروری ہے۔ خیانت بلکہ اس کے شبہہ سے بھی احتراز لازم ہے، خیانت یا شبہہ خیانت کا بھی عقد پر اثر پڑے گا۔“(بہار شریعت،ج2،ص738،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0152
تاریخ اجراء: 20 رجب المرجب 1445ھ/01فروری 2024ء