دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک درزی ہوں، میرا دوست بھی درزی کا کام کرتا ہے۔ ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم دونوں پارٹنر شپ کر کے کوئی دوکان کرائے پر لے لیں اورجو کام ہمارے پاس آئے گا وہ کریں گے اور نفع ہم دونوں برابر تقسیم کر لیں گے۔ کیا ہمارا اس طرح کام کرنا ، جائز ہےاور نفع کی تقسیم کاری کس طرح کی جا سکتی ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ دونوں کا اس طرح شرکت کرنا کہ آپ دونوں مل کر درزی کا کام کریں گے ، اس کے لئے ایک دوکان کرایہ پر لیں گے ، اس پر آنے والا درزی کا کام دونوں مل کر کریں گے ، جو نفع ہوگا وہ برابر تقسیم کریں گے ، بالکل جائز ہے ، اس معاہدہ کو شرعی اصطلاح میں شرکت بالعمل کہتے ہیں۔
شرکت بالعمل میں نفع کا تعین جیسے چاہیں کرلیں ، چاہیں تو برابر برابر کرلیں ، چاہیں تو کمی بیشی کے ساتھ کرلیں، چاہیں تو کم کام کرنے والے کے لئے زیادہ نفع کا تعین کردیں ، چاہیں تو اس کا برعکس کرلیں ، سب جائز ہے۔ اس تعین کے بعد اگر کسی شریک نے کم کام کیا یا بالکل ہی نہ کیا پھر بھی اس کو طے شدہ فیصد کے مطابق نفع ملے گا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ شرکت بالعمل میں نفع کا استحقاق کام یا مال کے بدلے نہیں ہوتا بلکہ کام کے ضمان کے بدلے ہوتا ہے،یعنی کام قبول کرنے کی وجہ سے ہر ایک شریک پر اس کام کا ضمان لازم ہو جاتا ہے، اس لازم ہونے والے ضمان کے سبب ہر شریک نفع کا مستحق ہوتا ہےنہ کہ عمل کرنےکی وجہ سے ،یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شریک کام کم کرے یا بالکل کام نہ کرےتب بھی طے شدہ نفع کا مستحق ہوگا۔
شرکت بالعمل کےمتعلق تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
”(و تقبل ان اتفق خیاطان او خیاط و صباغ علی ان یتقبلا الاعمال و یکون الکسب بینھما) علی ما شرط مطلقا فی الاصح“
یعنی: شرکتِ تقبل یہ ہے کہ دو درزی یا ایک درزی اوررنگریز اس شرط پر عقد شرکت کریں کہ لوگوں سے کام لے کر کریں گے اور اصح قول کے مطابق نفع طے شدہ تناسب سے تقسیم کر لیں گے۔
رد المحتار میں علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ مذکورہ عبارت مطلقا کے تحت فرماتے ہیں:
”سواء شرطا الربح علی السواء او متفاضلا و سواءتساویافی العمل او لا و قیل ان شرطا اکثر الربح لادناھما عملا لا یصح و الصحیح الجواز“
یعنی:چاہے نفع دونوں کے درمیان برابر ہو یا کم وبیش ہو ، چاہے دونوں برابر کام کریں یا نہیں ۔ کہا گیا ہے کہ کم کام کرنے والے کے لیے زیادہ نفع رکھنا درست نہیں لیکن صحیح یہ ہے کہ جائز ہے۔(در مختار مع رد المحتار ،جلد6،صفحہ492-494، دارالمعرفہ ، ملتقطا وملخصا)
مجمع الانہر ، فتح اللہ المعین ، درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام اور بحر الرائق وغیرہ میں ہے، واللفظ للبحر:
” والکسب بینھما اذا شرطاہ علی السواء او شرطا الربح لاحدھما اکثر من الآخر و قد صرح فی البزازیۃ معللا بان العمل متفاوت و قد یکون احدھما احذق فان شرطا الاکثر لادناھما اختلفوا فیہ و الصحیح الجواز لان الربح بضمان العمل لا بحقیقتہ“ یعنی:نفع دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا جبکہ برابر نفع لینا طے کیا ہو یا کسی ایک شریک کے لیے دوسرے سے زیادہ نفع لینا مشروط ہو ۔ بزازیہ میں علت بیان کرتے ہوئے صراحت فرمائی کہ عمل مختلف ہوتے ہیں اور کبھی ایک شخص دوسرے سے زیادہ ماہر ہوتا ہے۔ اگر کم کام کرنے والے کے لیے زیادہ نفع مقرر کریں تو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اور صحیح جواز ہے کیونکہ نفع ضمانِ عمل کی بنا پر ہے نہ کہ حقیقی کام کرنے کی بنا پر۔(بحر الرائق،جلد5،صفحہ303، دارالکتب العلمیۃ)
شرکت عمل میں کام نہ کرنے والا شریک بھی طے شدہ نفع کا حقدار ہوگا، جیساکہ بدائع الصنائع میں ہے:
”سواء عملا جمیعا او عمل احدھما دون الآخر فالربح بینھما یکون علی الشرط لان استحقاق الربح فی الشرکۃ بالاعمال بشرط العمل لا بوجود العمل“
یعنی :چاہے دونوں کام کریں یا دونوں میں سے ایک کام کرے ، دوسرا نہ کرے ،نفع دونوں کے درمیان طے شدہ تناسب سے تقسیم ہوگا کیونکہ شرکتِ اعمال میں نفع کا استحقاق عمل کی شرط کی بنا پر ہے نہ کہ عمل کرنے کی وجہ سے۔(بدائع الصنائع،جلد6،صفحہ63، دارالکتب العلمیۃ)
بہار شریعت میں ہے:”شرکت بالعمل کہ اسی کو شرکت بالابدان اور شرکتِ تقبل و شرکتِ صنائع بھی کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوکاریگر لوگوں کے یہاں سے کام لائیں اور شرکت میں کام کریں اور جو کچھ مزدوری ملے آپس میں بانٹ لیں۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ 505، مکتبۃ المدینہ کراچی)
شرکت بالعمل میں نفع کی تقسیم کاری کے متعلق بہار شریعت میں ہے:”اس میں یہ ضرور نہیں کہ جو کچھ کمائیں اس میں برابر کے شریک ہوں بلکہ کم و بیش کی بھی شرط ہو سکتی ہے اورباہم جو کچھ شرط کرلیں اُسی کے موافق تقسیم ہوگی۔ یوہیں عمل میں بھی برابر ی شرط نہیں بلکہ اگر یہ شرط کرلیں کہ وہ زیادہ کام کریگااور یہ کم جب بھی جائز ہے اور کم کام والے کو آمدنی میں زیا دہ حصہ دینا ٹھہرا لیا جب بھی جائز ہے ۔۔۔دونوں میں سے ایک نے کام کیا ہے اور دوسرے نے کچھ نہ کیا مثلاً بیمار تھا یا سفر میں چلاگیا تھا جسکی وجہ سے کام نہ کرسکا یا بلاوجہ قصداًاُس نے کام نہ کیا جب بھی آمدنی دونوں پر معاہدہ کے موافق تقسیم ہوگی۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ 506، مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب :ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر :IEC-288
تاریخ اجراء :08محرم الحرام1446ھ15جولائی2024ء