
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0144
تاریخ اجراء:01 رجب المُرجب 1445 ھ/13 جنوری 2024 ء
مرکزالاقتصادالاسلامی
Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)
(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا ایک دوست ہے، ہم دونوں ساتھ مل کر ایک ریسٹورینٹ کھولنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے پاس فی الحال انویسٹمنٹ بالکل نہیں ہے، اس لئے اس کام میں ساری انویسٹمنٹ میری ہو گی، ہم دونوں مل کر برابر ، برابر کام کریں گے، اور نفع ونقصان بھی برابر برابر تقسیم کریں گے، کیا ہمارا اس طرح پارٹنرشپ کرنا ، جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں مذکور طریقہ کار پر، پارٹنرشپ کرنا فقہی اُصولوں کے مطابق درست نہیں۔شراکت کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ دونوں کا سرمایہ ہو اگرچہ کہ کم زیادہ ہو اور دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک کا سرمایہ ہو لیکن وہ کام نہ کرے بلکہ دوسرا کام کرے جس کا سرمایہ نہیں ہے۔ پوچھی گئی صورت میں یہ دونوں صورتیں نہیں پائی جا رہی۔
مذکورہ صورت کا ایک متبادِل(Alternate) شرعی حل
آپ انویسٹ کی جانے والی آدھی رقم اپنے اُسی دوست کو بطورِ قرض دے دیں، پھر آپ اپنی آدھی اِنویسٹمنٹ اور آپ کا دوست آپ کے دیئے ہوئے قرض والی رقم کو ملا کر ریسٹورینٹ کے کام میں پارٹنرشپ کر لیں، جس میں دونوں پارٹنرز کی انویسٹمنٹ، نفع اور کام برابر ، برابر طے ہوں،اس طرح پارٹنرشپ کرنے کی صورت میں کسی پارٹنر کی کوتاہی کے بغیر ہونے والے نقصان کو بھی دونوں پارٹنرز پر برابر، برابر تقسیم کیا جائے گا۔
نوٹ: مذکورہ طریقہ کار کے مطابق عمل کرنے سے یہ آپ دونوں کا مشترکہ کاروبار کہلائے گا۔ اور دونوں اس کاروبار میں برابر کے شریک ہوں گے۔ ہاں اِس بات کا آپ کو مکمل اختیار ہو گا کہ آپ وقتاً فوقتاً اپنے پارٹنر سے اپنا دیا ہوا قرض وصول کرتے رہیں اور اس کا شیڈیول پہلے سے طے کرنا ضروری ہے تا کہ کسی قسم کی رنجش واقع نہ ہو۔
ایک پارٹنر کے پاس انویسٹمنٹ نہ ہونے کی صورت میں پارٹنرشپ کا جائز طریقہ بیان کرتے ہوئے علامہ الدین حصکفی علیہ الرحمۃ دُرمختار میں فرماتے ہیں:”ان يقرضه المال الا درهما ثم يعقد شركة عنان بالدرهم، وبما اقرضه على ان يعملا، والربح بينهما ۔۔۔۔۔ فالقرض عليه“یعنی:رب المال ایک درہم کے علاوہ باقی تمام مال، مضارب کو قرض دے دے ، پھر اس سے ایک درہم اور جو مال مضارب کو قرض دیا ہے، دونوں کو ملا کر اس کے ساتھ شركتِ عنان کا عقد کر لے، اس شرط پر کہ دونوں شریک کام کریں گے اور نفع بھی دونوں میں برابر تقسیم ہو گا اور اس پر قرض باقی رہے گا۔(درمختار مع رد المحتار ، جلد 8، صفحہ 498، مطبوعہ کوئٹہ ملخصاً)
صدرُ الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”مضاربت میں جو کچھ خسارہ ہوتا ہے وہ رب المال کا ہوتا ہے اگریہ چاہے کہ خسارہ مضارِب کوہو، مال والے کو نہ ہو، اُس کی صورت یہ ہے کہ کل روپیہ مضارِب کو بطور قرض دیدے اور ایک روپیہ بطور شرکت عنان دے یعنی اُس کی طرف سے وہ کل روپے جو اس نے قرض میں دیے اور اس کا ایک روپیہ اور شرکت اس طرح کی کہ کام دونوں کریں گے اور نفع میں برابر کے شریک رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ مستقرض کودیا ہے وہ قرض ہے اُس سے وصول کرے گا۔“(بہار شریعت، جلد 3، صفحہ 4، مکتبۃ المدینہ کراچی ملخصاً)
سیدی اعلی حضرت،امام اہلسنت ،مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ پارٹنرشپ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:”شرکت ایک عقد ہے جس کا مقتضی دونوں شریکوں کا اصل و نفع دونوں میں اشتراک ہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ 371،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم