دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شر عِ متین اس مسئلے میں کہ میرا ایک فلیٹ ہے، جسے کرایہ پر دینےکے لیےایک پارٹی کے ساتھ معاہدہ طے پایا۔ اس پارٹی نے دو ماہ کا ایڈوانس کرایہ ادا کیا ،جس کے بعد میں نے فلیٹ کی چابی اسے دے دی اور فلیٹ کا قبضہ بھی دے دیا۔ کرایہ دار نے فلیٹ میں کچھ سامان رکھنا شروع کر دیا لیکن ابھی پورا سامان نہیں آیا تھا اوررہائش اختیار نہیں کی تھی۔ ایک ہفتے بعد کرایہ داردوبارہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کسی اور جگہ فلیٹ مناسب معلوم ہو رہا ہے، میں وہاں شفٹ ہو رہا ہوں ، آپ کے فلیٹ میں نہیں رہوں گا۔ یہ آپ کے فلیٹ کی چابی ہے ،مجھے میرا ایڈوانس واپس کر دیں۔ میں نے فلیٹ کی چابی لے لی اور کہا کہ ٹھیک ہے لیکن ایڈوانس کی رقم واپس نہیں کی جائے گی۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس صورت میں شرعاًمیرے لیے کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ فلیٹ اس کے قبضہ میں ایک ہفتہ یعنی سات دن رہاہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ایڈوانس کے طور پر جمع کروائی گئی رقم سے آپ صرف سات دن کا کرایہ کاٹ سکتے ہیں ،بقیہ رقم واپس کرنا آپ پر لازم ہے۔
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہےکہ آپ کے اور کرایہ دار کے درمیان فلیٹ کرائے پر دینے کا معاہدہ طے پا چکا تھا اور آپ نے قبضہ بھی دے دیا تھا لہٰذا شرعاً کرایہ دار پر لازم تھاکہ اس معاہدے کو پورا کرتا اور بلاکسی شرعی عذرکے اسے منسوخ نہ کرتا۔ معاہدہ ہونے کے سات دن بعد ہی کرایہ دار کرائے کے معاہدے کو فسخ کرتے ہوئے فلیٹ کی چابی واپس کرنے لگا تو آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ اس معاہدے کی تنسیخ کو قبول نہ کرتے لیکن آپ نے اس سے فلیٹ کی چابی لے لی اور کہا ٹھیک ہے تو یہ معاہدے کے فسخ کو قبول کرنا ہوا جس کی وجہ سے آپ صرف اتنے ہی دن کے کرائے کے حقدار ہیں جتنے دن فلیٹ کرایہ دار کے قبضہ میں رہایعنی سات دن ،اور بقیہ رقم جو ایڈوانس کے طورپر جمع کروائی تھی وہ واپس کرنا آپ پر لازم ہے۔
کرایہ دارنے اگرچہ رہائش اختیار نہ کی تھی لیکن جتنے دن فلیٹ اس کے قبضہ میں رہا اس کا کرایہ دینا اس پر لازم ہے۔ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
” كما يجب الأجر باستيفاء المنافع يجب بالتمكن من استيفاء المنافع إذا كانت الإجارة صحيحة حتى إن المستأجر دارا أو حانوتا مدة معلومة ولم يسكن فيها فی تلك المدة مع تمكنه من ذلك تجب الأجرة، كذا فی المحيط“
یعنی:جس طرح منافع حاصل کرنے سے اجرت لازم ہوجاتی ہے اسی طرح منافع کے حصول پر قادر ہونے سے بھی اجرت لازم ہوجاتی ہے جبکہ اجارہ صحیح ہو یہاں تک کہ اگر کرائے پر لی جانے والی چیز معلوم مدت کے لیے لیا جانے والا گھر یا دکان تھی اور قادر ہونے کے باوجود اس میں رہائش نہ رکھی تو بھی اجرت واجب ہوگی ، ایسا ہی محیط ہے۔(فتاوی ہندیہ،جلد04،صفحہ413،مطبوعہ دار الفکر)
علامہ محمد بن محمد بن شہاب بن یوسف الکردی الشہیر بالبزازی( المتوفی 827ھ)رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”فتاویٰ بزازیہ “میں لکھتے ہیں:
”وإن نقضت الإجارة بعد ما قبض المؤجر الأجر حط من الأجرة قدر المستوفى من المنفعة ورد الباقی إلى المستأجر“
یعنی: موجر کے اجرت وصول کرنے کے بعد اگر اجارہ ختم کر دیا جائے تو جتنی مقدار مستاجر نےمنفعت حاصل کی اتنی مقدار میں اجرت کاٹ لی جائے گی اور باقی کرایہ دار کو واپس لوٹائی جائے گی۔(فتاوی بزازیہ،جلد01،صفحہ416،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
اگر اجارہ دورانِ مدت ہی توڑ دیا جائےتو مدتِ اجارہ کے پیسے مالک لے گا، باقی رقم واپس کرے گا جبکہ اس نے اجرت ایڈوانس لی ہو۔چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
”وإن نقضت الإجارة بعد ما قبض المؤجر الأجر حط من الأجرة قدر المستوفى من المنفعة ورد الباقی إلى المستأجر، كذا فی الوجيز للكردری“
یعنی: موجر کے اجرت وصول کرنے کے بعد اگر اجارہ توڑ دیا جائے تو جتنی مقدار مستاجر نےمنفعت حاصل کی اتنی اجرت کاٹ لی جائے گی اور باقی کرایہ دار کو لوٹائی جائے گی۔ اسی طرح الوجیز للکردری میں ہے۔(فتاوی ہندیہ،جلد04،صفحہ413،مطبوعہ دار الفکر)
اسی طرح صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ” بہار شریعت“ میں لکھتے ہیں:” مستاجر نے کرایہ دے دیا ہے اور اندورنِ مدت اجارہ توڑ دیا گیا تو باقی زمانہ کا کرایہ واپس کرنا ہوگا۔“(بہار شریعت،جلد03،صفحہ112،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
کرائے دار اگر معاہدہ فسخ کرتے ہوئے مالک مکان کو چابی واپس کرے اور وہ قبول کرلےتو یہ دلالۃً کرائے کا معاہدہ ختم کرنا ہے۔چنانچہ علامہ برہان الدین ابو المعالی محمود بن احمدالمرغینانی البخار ی الحنفی (المتوفی 616ھ )رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”محیط برہانی “اور ”ذخیرہ برہانیہ“ میں اورعلامہ زین الدین ابوالفتح عبد الرحیم بن ابی المرغینانی الحنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ” فصول الاحکام فی اصول الاحکام المعروف بفصول عمادی“میں لکھتے ہیں،
واللفظ للآخر: ” وفي «فتاوى شمس الإسلام الأوزجندي» : رجل استأجر من رجلين داراً مشتركاً بينهما ثم دفع المفتاح إلى أحدهما وقبل هو انفسخت الإجارة في حصته؛ لأن دفع المستأجر المفتاح وقبول الآجر ذلك دلالة الفسخ ، والإجارة كما تنفسخ بصريح الفسخ تنفسخ بدلالة الفسخ۔ألا ترى أن الآجر لو كان واحداً ودفع المستأجر المفتاح إلى الآجر، وقبل الآجر ذلك تنفسخ الإجارة بينهما “
یعنی:فتاویٰ شمس الاسلام اوزجندی میں ہے کہ ایک شخص نے دو شخصوں کے درمیان مشترک گھر کرائے پر لیا پھر ان دونوں میں سے ایک کو چابی دے دی اور اس نے قبول کرلیا تو اجارہ فقط اسی کے حصہ میں فسخ ہوگا کیونکہ کرائے پر لینے والے کا چابی واپس کرنا اور مالک کا اسے قبول کرنا فسخ پر دلالت کرتا ہے اور اجارہ جیسے صراحۃً فسخ کرنے سے فسخ ہوتا ہے اسی طرح دلالۃًفسخ سے بھی فسخ ہوجاتا ہے۔ اگر یہاں کرائے پر دینے والا ایک ہی شخص ہوتا اور کرائے پر لینے والا مالک کو چابی واپس کرتا اور مالک قبول کر لیتا تو ان کا عقد فسخ ہوجاتا ۔(فصول الاحکام فی اصول الاحکام المعروف بفصول عمادی،صفحہ446،مصر)(المحیط البرھانی،جلد07،صفحہ510،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)(الذخیرۃ البرھانیہ،جلد12،صفحہ70،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
دو شخصوں نے اپنا مشترکہ گھر کرائے پر دیا ہوا ہے، کرائے دار نےمعاہدہ فسخ کرتے ہوئے ان میں سے ایک کو گھر کی چابی واپس کی اور اس نے قبول کر لی تو یہ دلالۃً اپنے حصے میں معاہدہ کرایہ داری کے فسخ کو قبول کرنا ہے۔چنانچہ علامہ بدر الدین محمود بن اسرائيل الحنفی (المتوفی 823ھ ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ”جامع الفصولین“ میں لکھتے ہیں:
”ولو استأجر منهماداراً ثم دفع مفتاحه إلى أحدهما وقبل انفسخت الإجارة في نصيبه إذ الدفع والقبول فسخ دلالة وهي كالصريح في انفساخ الإجارة “
یعنی ایک شخص نے مشترک گھر کرائے پر لیا پھر ان دونوں میں سے ایک کو چابی دے دی اور اس نے لے لی تو اجارہ فقط اسی کے حصہ میں فسخ ہوگا،کیونکہ چابی دینااور اس کا قبول کرنا دلالۃً فسخ ہے اور عقدِ اجارہ فسخ کرنے میں یہ عمل صریح کی طرح ہے ۔(جامع الفصولین،الجزءالاول،صفحہ250،مطبع المصریہ)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا: ”ہندہ کی طر ف سے اس کے پیروکار نے ایک دکان زید کو کرائے پر دی مگر ابھی تک نہ کرایہ نامہ تحریر ہوا، نہ کوئی اقرار کسی میعادِ معین برس یا چھ مہینے کا ہوا، اورنہ مالکِ دکان کی جانب سے اظہار کسی مدت برس یا چھ مہینے کا ہوا تھا کہ زید کرایہ دار نے اپنے مصارف سے بقدر آرام مرمت دکان کی کرائی، ابھی بیٹھنے کی نوبت نہ آئی تھی کہ زید کو حاجت اس دکان کی نہ رہی اور عرصہ تخمیناً ایک ہفتہ میں زید نے پیرو کار مالکہ دکان کے پاس تالی دکان کی واپس بھیج کر اطلاع دی کہ دکان دوسرے کو دے دو، مجھ کو حاجت نہ رہی اورآج تک کے دنوں کاکرایہ مجھ سے لے لو۔ اس کے جواب میں سال بھر کے کرایہ کی طلب زید سے کی گئی، بعد زیادہ گفتگو کے آخر تصفیہ حکم شرعی پر قائم ہوا ہے لہٰذا حکم فرمائیں کہ اس حالت میں زید کے ذمہ ازروئے احکامِ شرعی کس قدر کرایہ ادا کرنا واجب ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئےآپ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :”اس صورت میں تو سال بھر کا کرایہ مانگنا ظاہر ہے کہ صریح ظلم وحرام ہے، اور اگر سالانہ کرایہ قرار پاتا ہو، اگر چہ ماہوار کی اجرت بھی بتادی گئی ہو مثلاً کہا یہ دکان ہر سال ساٹھ روپے کرائے پر تجھے دی، ہر مہینے پر پانچ روپے ، تو اس تقدیر پر اگر چہ پہلے سال کے لئے اجارہ صحیح ہوگیا۔۔۔مگر جبکہ ایک ہفتہ کے بعدکرایہ دار نے کنجی واپس بھیج دی، اور مالکہ کے کارکن نے لے لی، اور اس کے فسخِ اجارہ کوقبول کرلیا تو جبکہ یہ کارکن مالکہ کا مختارِ عام ہو یا اس عقدِ خاص کے فسخ وقبول کا مالکہ نے اسے اختیار دیا ہو، یا اسے اختیار نہ تھا مگر اس نے مالکہ کو اطلاع دی اور وہ فسخ پر راضی ہوگئی، تو ان سب صوتوں میں صرف اسی ہفتہ کا کرایہ زید پر لازم آیا، زیادہ کی طلب محض بے معنٰی ہے۔الخ۔“(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ489-491،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب :ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر :IEC-658
تاریخ اجراء :23محرم الحرام 1447ھ / 19 جولائی 2025ء