موبائل چارجر میں وزنی چیز شامل کرکے بیچنے کا حکم

موبائل چارجر میں کوئی وزنی چیز شامل کرکے  بیچناکیسا؟

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  میرا موبائل چارجر بنانے کا کارخانہ ہے، اور دکاندار حضرات ہمیں کہتے  ہیں کہ ہم انہیں چارجر میں پتھر یا شیشہ وغیرہ لگاکر اسکا وزن بڑھا کر دکاندار کو دیں تاکہ ان کے لیے کسٹمر کو بیچنا اور اسے مطمئن کرنا آسان ہو کہ لوگ وزنی چارجر دیکھ کر مطمئن ہوتے ہیں۔ کیا ہمارا اس طرح چارجر کا وزن بڑھا کر دکاندار کو دینا جائز ہے؟ جبکہ ہم کسی کو دھوکہ نہیں دیتے کہ ہم دکانداروں کو کہیں کہ دیکھیں ہمارے چارجر وزنی ہوتے ہیں، بلکہ دکانداروں کو علم ہوتا ہے کہ یہ وزنی انہوں نے ہی کروائے ہوتے ہیں؟البتہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ    چارجر میں کوئی وزنی چیز شامل ہے یا نہیں اوراسی طرح بغیر بتائے ان کو چارجر بیچا جاتا ہے ؟

ضروری نوٹ: مارکیٹ میں اکثر لوکل یا جعلی چارجر بنانے والے یہ حرکت کرتے ہیں کہ:چارجر کے خول (case) کے اندر پتھر، مٹی، یا شیشے کے ٹکڑے ڈال دیتے ہیں تاکہ وزن زیادہ لگے۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خریدار کو یہ دھوکہ ہو کہ چارجر بھاری ہے تو شاید اچھی کوالٹی یا اصل کمپنی کا ہوگا۔اصل میں اس کے اندر سستا، ناقص سرکٹ (circuit) لگا ہوتا ہے جو اکثر زیادہ کرنٹ دیتا ہے یا اوور ہیٹ ہو کر موبائل کو نقصان پہنچا دیتا ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں  دکانداروں   کا وزن والا  چارجر فروخت  کرنا دھوکا وفریب ہے،  جو کہ  مسلمان تو درکنار کسی کافر کو دینا بھی جائز نہیں، لہذا اس طرح چارجر  فروخت کرنا ناجائز وحرام اورگناہ ہے ۔جبکہ آپ  اپنے کارخانے کے ذریعے   وزنی چارجر بنا کر دکانداروں کو دینے کے سبب اس  دھوکے اورگناہ کے کام میں ان کے شریک و مددگار ہیں  ،حالانکہ  کسی بھی  ناجائزو گناہ والے کام پر مدد کرنا ناجائز وحرام اور گناہ ہے، لہذا آپ کا دکانداروں کو اس طرح وزن والا چارجر بنا کر بیچنا بھی ناجائز وگناہ ہے ۔

سنن ابن ماجہ میں ہے :

” عن أبي هريرة، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل يبيع طعاما، فأدخل يده فيه فإذا هو مغشوش، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس منا ‌من ‌غش “

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے  فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا  تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو اندر سے غیر خالص اور دھوکے والا تھا (باہر سے سوکھا اور اندر سے گیلا تھا )تو رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :وہ ہم میں سے نہیں جو دھوکا دے ۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب التجارات ، با ب النھی عن الغش ، جلد 02،صفحہ 749،دار إحياء الكتب العربية)

فیض  القدیر میں ہے:

” والغش ستر حال الشيء “

کسی  چیز کی  حالت کو چھپانا دھوکا ہے۔(فیض القدیر ، جلد 06،صفحہ 185، المكتبة التجارية الكبرى ،مصر)

فتاوی رضویہ میں ہے :”غدر (دھوکا)وبدعہدی مطلقاً سب سے حرام ہے مسلم ہو یا کافر ذمی  ہو یا حربی مستامن ہو یا غیر مستامن اصلی ہو یا مرتد۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 14، صفحہ140 ، رضافاؤنڈیشن  لاہور)

دھوکا ہونے یا نہ ہونے  کا دار و مدار اس پر ہے کہ سامنے والے کو ملاوٹ والی چیز کا علم ہے یا نہیں !اس کے متعلق  فتاوی رضویہ میں ہی ہے :” اگریہ مصنوعی جعلی گھی وہا ں عام طور پر بکتاہے کہ ہر شخص اس کے جعل ہونے پر مطلع ہے اور باوجود اطلاع خریدتاہے تو بشرطیکہ خریداراسی بلد کا ہو، نہ غریب الوطن تازہ وارد ناواقف اور گھی میں اس قدرمیل سے جتنا وہا ں عام طورپر لوگو ں کے ذہن میں ہے اپنی طرف سے اور زائد نہ کیا جائے نہ کسی طرح اس کا جعلی ہونا چھپا یاجائے، خلاصہ یہ کہ جب خریدارو ں پر اس کی حالت مکشوف ہو اور فریب ومغالطہ راہ نہ پائے تو اس کی تجارت جائزہے، آخر گھی بیچنا بھی جائز اور جوچیز اس میں ملائی گئی اس کا بیچنا بھی، اور عدم جواز صرف بوجہ غش وفریب تھا، جب حال ظاہر ہے غش نہ ہوا، اور جواز رہا جیسے بازاری دودھ کہ سب جانتے ہیں کہ اس میں پانی ہے او ر باوصف علم خریدتے یہ اس صورت میں ہے جبکہ بائع وقت بیع اصلی حالت خریدار پرظاہر نہ کردے، اور اگر خود بتادے تو ظاہر الروایت ومذہب امام عظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں مطلقا جائز ہے خواہ کتنا ہی میل ہو اگرچہ خریدار غریب الوطن ہو کہ بعدبیان فریب نہ رہا ۔۔۔ بالجملہ:  مدار کا رظہور امر پرہے خواہ خود ظاہر ہو جیسے گیہو ں میں جو، چنو ں میں کسا،یا بجہت عرف و اشتہار مشتری پرواضح ہوجیسے دودھ کا معمولی پانی خواہ یہ خو دحالت واقعی تمام وکمال بیان کرے ۔“(فتاوی رضویہ ، جلد17،صفحہ 150، رضافاؤنڈیشن لاہور)

گناہ اور زیادتی پر مدد کرنا بھی ناجائز وحرام اور گناہ ہے ، اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾

ترجمۂ  کنز الایمان : اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(پارہ 06،سورۃ المائدۃ 05، آیت  02)

تفسیر نسفی میں ابو البركات ، حافظ الدين ،عبد الله بن احمد بن محمود النسفی(سال وفات /710ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں  :

” يجوز ‌أن ‌يراد ‌العموم لكل بر وتقوى ولكل إثم وعدوان “

ترجمہ:یہ بات جائز ہے کہ اس آیت سے ہر نیکی وبھلائی اور ہر گناہ وزیادتی مراد  لی  جائے ۔(تفسر نسفی ، جلد 01،صفحہ 425، دار الکلم الطیب بیروت)

تفسیر صراط الجنان میں شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم عطاری  قدس سرہ العزیز اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :” اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زُمرے میں آتی ہو۔ ۔۔۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے ۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔ ملخصاً۔“(تفسیر صراط الجنان ، جلد 02،صفحہ 378،379، مکتبۃ المدینہ )

ہماری صورت میں  اس طرح  الگ سے کوئی چیز ڈال کر چارجربنانا اور اسے بیچنا  گناہ کے کام پر مدد کی  وجہ سے ناجائز وگناہ ہے اگرچہ اس  کی وضع یا مقصود اعظم معصیت نہیں لیکن  یہاں پر قرینہ موجود ہے کہ سامنے والا اسے معصیت (دھوکے )میں ہی  استعمال کرے گا ، لہذا یہ بھی اعانت علی المعصیت ہی  قرارپائے گا،جدالممتار میں  ہے :

”فاعلم ان معنی ماتقوم  المعصیۃ  بعینہ ان یکون  فی اصل  وضعہ  موضوعا للمعصیۃ  او تکون  ھی المقصودۃ  العظمی منہ  ،فانہ  اذاکان  کک  یغلب   علی الظن  ان المشتری  انما یشتریہ لاتیان المعصیۃ  فما کان مقصود  ہ الاعظم    تحصیل معصیۃ    کان شراؤہ   دلیلا  واضحا  علی ذالک   القصد   فیکون بیعہ اعانۃ   علی المعصیۃ ۔۔۔ وکذالک  مالم یکن موضوعا  لذلک   بعینہ   ولا ماھو   المقصود    الاعظم  منہ لکن   قامت قرینۃ  ناصۃ   علی ان  مقصود  ھذا المشتری  انما یستعملہ   معصیۃ   کان معینا للعصیان“ 

 ترجمہ:پس جان لو کہ  بعینہ کسی چیز کے ساتھ معصیت کے قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  اسکی اصل ِوضع ہی گناہ کے لیے ہوئی یا پھر  اسکا  بڑا مقصد ہی گناہ کے لیے استعمال ہونا ہے ،پس جب ایسی چیز ہوگی تو  پھر ظن غالب یہ ہی  ہوگا  کہ خریدار اسے  گناہ کا کام کرنے کے لیے ہی خرید رہا ہے  ،اورجس چیز کا مقصود اعظم ہی  اس سے  حصول معصیت ہو   تو اسکا خریدنا   اس بات    کی  واضح دلیل   ہے  کہ خریدنے والے کا قصد گناہ کرنا ہی ہے ،تو اسکی بیع   کرنا   گناہ پر مدد کرنا ہی   شمار ہوگا ۔۔۔اسی طرح وہ چیز جس کی بعینہ وضع  تو   گناہ کے لیے نہیں ہوئی  اور نہ ہی اس کا مقصود اعظم  حصول معصیت  ہو    ،لیکن  اس بات  پر واضح قرینہ موجود ہو کہ  اس خریدنے والے کا مقصد    یہ ہی ہے کہ یہ اسے گناہ کے لیے استعمال کرے گا  تواس صورت میں بھی بیچنے والا  گناہ  پر مدد کرنے والا  قرار پائے گا۔(جد الممتار،کتاب الحظر و الاباحۃ، جلد07،صفحہ 76،ملتقطا ،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

اگر معلوم ہو کہ سامنے والا بندہ ہتھیار فتنہ برپا کرنے کےلیے خریدرہا ہے تواسے ہتھیار بیچنا گناہ پر مددہے ،ہدایہ شرح بدایہ میں ہے:

”ويكره بيع السلاح من أهل الفتنة وفي عساكرهم ؛ لأنه إعانة على المعصية“

ترجمہ: فتنہ گروں  کو اور ان کے لشکروں میں ہتھیاربیچنا  مکروہ ہے، کیونکہ یہ گناہ پر مدد کرنا ہے۔ (الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی ، كتاب السير ،جلد  02، صفحہ 414، دار احياء التراث العربي، بیروت)

اسی طرح معلوم ہو کہ کوئی بندہ کاغذ  معصیت (جھوٹا دعوی دائر کرکے مقدمہ جیتنے)میں استعمال کرے گا تو اسے بیچنا ناجائز اور یہاں اعلی حضرت رحمہ اللہ نے ہتھیار والی نظیر ہی پیش فرمائی ہے حالانکہ کاغذ کا استعمال  جائز وناجائز ہر دو طرح سے ہو سکتا ہے ،  فتاوی رضویہ میں ہے:”جبکہ یہ جانتاتھا کہ وہ نالش دروغ کے لئے کاغذ لیتاہے تو اسے اس کے ہاتھ بیچنا معصیت پر اعانت کرنا ہوا جس طرح اہل فتنہ کے ہاتھ ہتھیار اور معصیت پر اعانت خود ممنوع ومعصیت۔“(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ149،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

اشکال:

دکاندار کا دھوکے سےکسٹمرز کو چارجر بیچنا فاعل ِ مختار کا اپنا فعل نہیں کہلائے گا  اس طرح سے  کارخانے کا چارجر بنا کر دینا تو جائز ہے جبکہ وہ  اس گناہ میں مدد کرنے کی نیت نہ کرے ۔

جواب :

جواب سے پہلے یہ تمہید سمجھنا ضرور ی ہے کہ بنیادی طوپر ہماری نظیر  ہتھیار بیچنے کی ہے اور نفس ہتھیار ایسے بندے کو بیچنا کہ جس کے بارے میں ظن غالب ہو کہ وہ اسے معصیت میں استعمال کرے گا ناجائز و گناہ ہے ۔یہاں پر دو چیزیں ہیں جن کے متعلق فقہائے کرام نے کلام فرمایا ہے :

(1):ایسے بندے کو بیچنا کہ جس کے بارے میں ظن غالب ہو کہ وہ اسے معصیت  کےلیے خرید رہاہے تو پھر نسبت  بیچنےوالے کی طرف ہوتی ہے اسی وجہ سے اس کا بیچنا بھی ناجائز قرار پاتا ہے ۔

(2): ہتھیار بیچنا ممنوع  ہے نہ کہ لوہا وغیرہ کہ جس سے ہتھیاربنایا جاسکتا ہو ، وجہ یہ ہے کہ  نفسِ ہتھیار سے معصیت کا قیام ہونے کے سبب نسبت بیچنے والے کی طرف ہوگی  اوراس کا بیچنا ناجائز قرارپائے گا  یہی وجہ ہے کہ یہاں یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ فاعل مختار کا فعل ہے جبکہ   لوہے کے ساتھ  معصیت کا قیام نہیں  بلکہ اس میں تبدیلی کر کے  معصیت کا قیام ہو گا اور اس تبدیلی سے  بیچنے والے کی طرف  نسبت  منقطع ہو جاتی ہے اورمعصیت  کی نسبت    فاعل مختار کی طرف  ہونے کے سبب  اُسے چیز بیچنا جائز قرار پاتا ہے ۔

ہماری اس تمہید سے چارجروالا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ   جب یہ معلوم ہے کہ دکاندار اسے معصیت یعنی دھوکا دینے میں ہی استعمال کرے گا، اسی لیے تو اس کی ڈیمانڈ ہے کہ چارجر میں وزنی چیز شامل کر کے دیا جائے ، نیز چارجر کے عین  کے ساتھ ہی دھوکے والی معصیت کا قیام ہو گا  لہذا یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ فاعل مختار کا فعل ہے تو کارخانے کے  مالک کا اسے چارجر بیچنا جائز قرار پائے بلکہ   وہ اس گناہ میں ضرور شریک و مددگار ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ   سے اوپر ذکر کردہ جزئیہ میں اعلی حضرت رحمہ اللہ نے ہتھیار والی مثال سے ہی  کاغذ کی خریدو فروخت کا حکم بیان کیا ہے ۔

بغیر تبدیلی  کے چیز کے ساتھ معصیت کا قیام ہو گا تو اہل  معصیت کے ہاتھ بیچنا ناجائز ہے جبکہ تبدیلی  کے بعد چیز سے معصیت قائم ہو گی تو بھی اسے  اہل معصیت کے ہاتھ بیچنا  بھی جائز ہے ،ہدایہ شرح بدایہ میں ہے :

” وإنما يكره بيع نفس السلاح لا بيع مالا يقاتل به إلا بصنعة ألا ترى أنه يكره بيع المعازف ولا يكره بيع الخشب “

ترجمہ:اور بعینہ سلاح (ہتھیار)کی بیع مکروہ ہے، نہ کہ اس چیز کی بیع جس سے جنگ نہ کی جا سکتی ہو مگر اسے دوسری صنعت  یا بناوٹ میں ڈھالنے کے بعد۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ آلات موسیقی کی بیع مکروہ ہے اور لکڑی کی بیع مکروہ نہیں!(الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی ، کتاب السير ،جلد02،صفحہ 414، دار احياء التراث العربي، بيروت)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے :

” (إلا بصنعة) ش: متجددة، فإنه لا بأس من أهل الفتنة “

ترجمہ: (مگر دوسری صنعت یا بناوٹ) یعنی  کسی نئی  بناوٹ میں ڈھالنے کے بعد ، اور ایسی چیز  فتنہ گروں کے ہاتھ بیچنے میں حرج نہیں ۔(البنایۃفی شرح الھدایۃ ، ، کتاب السير،جلد07،صفحہ 310، دار الكتب العلمية ، بيروت)

عنایہ شرح ہدایہ میں ہے :

” «وقوله (إلا ‌بالصنعة) به يريد الحديد، لأنه إنما يصير سلاحا بفعل غيره فلا ينسب إليه ألا ترى أنه يكره بيع المعازف) ۔۔۔(ولا يكره بيع الخشب) لأنه إنما يصير معزفا بفعل غيره ۔ملخصاً“

ترجمہ:اور اس کے قول (دوسری صنعت  یا بناوٹ ) سے مراد لوہا ہے؛کیونکہ وہ تو کسی دوسرے کے عمل سے ہی ہتھیار بنتا ہے، اس لیے اس کی نسبت اس (بیچنے والے) کی طرف نہیں کی جاتی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ  آلاتِ موسیقی کی بیع مکروہ ہے  اور  لکڑی کی بیع مکروہ نہیں ہے؛کیونکہ وہ تو کسی دوسرے کے عمل سے ہی ساز بنتی ہے۔(العنایۃ فی شرح الھدایۃ ، کتاب السير،جلد06،صفحہ 107، دار الفكر، بيروت)

جد الممتار میں ہے :

” بخلاف بيع السلاح من أهل الفتنة -يعني: في أيام الفتنة كما قيّد به في "الهداية" - فإنّه وإن لَم يكن موضوعاً للمعصية لكنّ المشتري من أهل الفتنة دليل واضح على أنّه إنّما يشتري ليقاتل بها أهل العدل مع عدم الحاجة في إتيان المعصية أي: تغيير يقطع النسبة فيكره بيعه أيضاً “

ترجمہ:فتنہ گروں کو ہتھیار بیچنے کے برعکس  یعنی فتنہ و فساد کے دنوں میں، جیسا کہ ہدایہ میں اس کی قید لگائی گئی ہے ؛کیونکہ اگرچہ ہتھیار فی نفسہٖ معصیت کے لیے وضع نہیں کیا گیا، لیکن جب خریدار فتنہ پرستوں میں سے ہو تو یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ وہ اسے اہلِ عدل سے لڑنے کے لیے خرید رہا ہےباوجو د اس کے کہ یہاں معصیت کے ارتکاب میں کسی اور کی حاجت بھی نہیں، یعنی  ایسی تبدیلی کی جو کہ  (بیچنے والے سے) اس کی  نسبت ختم کر دے پس اس کی بیع بھی مکروہ ہے۔(جدالممتار ، کتا ب البیوع، جلد07،صفحہ 77، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب :مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر :Nrl-0351

تاریخ اجراء : 04ربیع الاول1447ھ/29اگست2025ء