دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شر ع متین اس مسئلے میں کہ ایک مشہورسودی بینک نے خاص عورتوں کے لئے ایک کرنٹ اکاؤنٹ بنام ”نایاب کرنٹ اکاؤنٹ“ متعارف کروایا ہے ، اس اکاؤنٹ کے بینک نے تین ڈپازٹ ٹیئرز رکھے ہیں : ٹیئر ماس ، ٹیئر پریمیم اور ٹیئر افلوئنٹ ۔

ان تینوں ٹیئرز کے معیار کے مطابق اکاؤنٹ ہولڈر کو مختلف سہولیات دی جارہی ہیں مثلاً:
اگر اکاؤنٹ ہولڈرماہانہ بیلنس اوسطاً 1لاکھ سے اوپر مینٹین کرتا ہے تو اس کو 10 چیک بک اور بینکرز چیک فری میں جاری ہوں گےاور اگر اوسطاً 1 ملین سے اوپر ماہانہ بیلنس مینٹین رکھا جاتا ہے تو پھر Unlimited چیک بک فری ہوں گی۔
یہی معاملہ ڈیبٹ کارڈ کا ہے کہ اگر دوسری یا تیسری کیٹیگری کے مطابق اکاؤنٹ میں رقم مینٹین ہوتی ہے تو پھر سالانہ چارجز بالکل نہیں ہوں گے بصورتِ دیگر یعنی اگر رقم مینٹین نہیں رکھی جاتی ہے تو سالانہ چارجز ادا کرنے ہوں گے۔
اسی طرح لاکر کی سروس بھی مخصوص رقم اکاؤنٹ میں مینٹین رکھنے پر پہلے سال کے لئے فری میں ملے گی ورنہ فری میں نہیں ملے گی۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ یہ کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانا، جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مذکورہ کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانا بہت ساری خرابیاں پائی جانے کی وجہ سے ناجائز وگناہ اور سودی معاملہ ہے۔کیونکہ بینک کی طرف سے مذکورہ کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈر کو یہ سہولت دینا کہ اگر ماہانہ اتنی اوسط رقم اکاؤنٹ میں رہے گی تو چیک بک اوربینکرز چیک کی فیس نہیں لی جائے گی بلکہ مفت دئیے جائیں گے،اسی طرح ڈیبٹ کارڈ کے سالانہ چارجز بھی معاف ہوجائیں گے یا کم چارج ہوں گے تویہ ساری سہولت ناجائز و سود ہے۔ نیز یہ سہولت کہ ماہانہ اتنی اوسط رقم اکاؤنٹ میں رہے گی تو لاکر کی سروس مفت ملے گی یا 50 فیصد کم میں ملے گی، یہ بھی خالص سود اور حرام آفر ہے کیونکہ یہ دونوں سہولتیں کرنٹ اکاؤنٹ میں مخصوص رقم رکھنے کی بنیاد پر مل رہی ہیں۔ اگر یہ رقم نہ رکھی جائے تو یہ سہولتیں بھی نہیں ملیں گی، لہٰذا حقیقت میں یہ سہولتیں قرض کی رقم رکھنے کی بنیاد پرمل رہی ہیں اور قرض پر ملنے والا کسی بھی قسم کا مشروط نفع ناجائز وحرام اور سود ہے۔
اگر کسی کامذکورہ سہولتوں کو حاصل کرنے یا اکاؤنٹ میں رقم مینٹین رکھنے کا ارادہ نہ ہو تب بھی مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ، جائز نہیں کیونکہ مذکورہ اکاؤنٹ کا معاہدہ ناجائز شرائط پر مشتمل ہے اور ناجائز شرائط پر مشتمل معاہدہ کرنا ہی جائز نہیں اگرچہ ناجائز شر ائط پر عمل کا ارادہ نہ ہو۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں یہ اکاؤنٹ کھلوانا کسی صورت جائز نہیں ۔
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں سود کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾
ترجمہ کنز الایمان :اوراللہ نے حلال کیابیع اورحرام کیاسود۔(سورة البقرۃ ،آیت 275 )
ہر وہ سہولت یا نفع جو قرض کی وجہ سے ملے ، وہ سہولت یا نفع لینا حرام ہوتا ہےجیساکہ حدیث شریف میں ہے:
”كل قرض جر منفعة فهو ربا“
یعنی قرض کی بنیاد پر جونفع حاصل کیا جائے وہ سودہے۔(کنزالعمال،حدیث 15516، جلد6،صفحہ238، بیروت)
در مختار میں ہے:
”کل قرض جر نفعاً حرام“
یعنی نفع کا سبب بننے والا قرض حرام ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃا للہ علیہ ، رد المحتار میں اس عبارت کے تحت لکھتے ہیں:
” اذا کان مشروطاً“
یعنی مشروط نفع حرام ہے ۔(در مختار مع رد المحتار،جلد5،صفحہ166، مطبوعہ بیروت)
آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
”إنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم“
یعنی قرض دینے والے کامقروض کی کسی چیز سے نفع اٹھانا حلال نہیں ہےاگرچہ رہن رکھوا نے والےکی اجازت سے ہو کیونکہ اس کا اجازت دینا سود کی اجازت دینا ہے۔وجہ یہ ہےکہ جب قرض لینے والااپناقرض مکمل وصول کرے گاتوحاصل ہونے والی منفعت اس کے لئے(عوض سے خالی ) اضافہ ہے جو کہ سودقرار پایا اور یہ بہت سخت معاملہ ہے۔(رد المحتار،جلد5،صفحہ166،مطبوعہ بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب :ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر :IEC-286
تاریخ اجراء :04محرم الحرام1446ھ11جولائی2024ء