واپس یا تبدیل نہ کرنے کی شرط پر خرید و فروخت کرنا

واپس یا تبدیل نہ کرنے کی شرط پر سودا کرنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  بعض دکانوں پر یہ جملہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’خریدا ہوا سامان واپسReturn یا تبدیلExchange نہیں ہوگا‘‘، سوال یہ پوچھنا ہے کہ اگر ایسی دکان سے سامان خریدا اور سامان عیب دار یا خراب نکلا تو کیا کسٹمر کو وہ سامان واپس کرنے کا اختیار ہوگا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شریعت مطہرہ نے دکان دار کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ جس چیز کو وہ بیچ چکا اسے بلاوجہ واپس نہ لے لہذا دکاندار کے لئے یہ جملہ لکھنا کہ’’خریدا ہوا سامان واپسReturn یا تبدیلExchange نہیں ہوگا‘‘ایک اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے ، خریداری کا اصل مقصد ہی انتقال ملکیت ہے ۔ خریداری کے بعد بیچا گیا مال گاہک کا اوربدلے میں ملی رقم دکان دار کی ہو جاتی ہے اور سودا مکمل ہو جاتا ہے  جو محض ایک فریق کی خواہش پر کینسل نہیں ہو سکتا ۔

البتہ اگر  بیچی جانے والی چیز عیب دار ہو اور دوکاندار اس چیز کا عیب ظاہر کیے بغیر ہی بیچ دے تو شریعت مطہرہ نے خریدار کو عیب کی وجہ سے سامان واپس کرنے کا اختیار دیا ہے، اسے ’’خیار عیب‘‘ کہتے ہیں، ایسی صورت میں مذکورہ جملہ لکھ کر لگادینا کفایت نہیں کرے بلکہ کسٹمر کے مطالبے پر اسے لازمی طور پر سامان واپس کرنا ہوگا۔  ہاں اگر دکاندار نے کسی خاص چیز کے متعلق پہلے ہی ہر عیب سے براء ت ظاہر کردی تو اب وہ چیز عیب دار ہونے کے باوجود واپس لینا اس پر لازم نہیں۔ اس کے علاوہ بھی بعض ایسی صورتیں شریعت  کی تعلیمات میں ہیں جن میں سامان واپس لینا ضروری ہوتا ہے۔

ہدایہ میں ہے:

’’اذا حصل الايجاب والقبول لزم البيع، ولا خيار لواحد منهما الا من عيب او عدم رؤية‘‘

یعنی:جب ایجاب و قبول ہوجائے تو بیع لازم ہوجاتی ہے اور بائع اور مشتری کسی کو بھی یکطرفہ طور پر معاہدے سے پھرنےکا اختیار نہیں ہوتا سوائے خیار عیب اور خیار رویت کے۔(الهدايه مع بناية،ج08،ص11،بيروت)

خریدار کوخیار عیب اسی وقت حاصل ہوگا جبکہ دوکاندار نے عیب سے براء ت کی شرط نہ لگائی ہو جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’ومنها عدم اشتراط البراءة عن العيب في المبيع عندنا حتى لو اشترط فلا خيار للمشتري كذا في البدائع ‘‘

یعنی:خیار عیب کے حصول کےلئے ہمارے نزدیک ایک شرط یہ ہے کہ مبیع میں عیب سے براءت کی شرط نہ کی گئی ہو،یہاں تک کہ اگر   بائع نے مبیع میں عیب سے براءت کی شرط لگا دی تو مشتری کو خیار عیب حاصل نہیں ہوگا جیساکہ بدائع میں ہے۔(فتاوی عالمگیری،ج3،ص67،مطبوعہ بيروت)

بہار شریعت میں ہے:”مبیع میں عیب ہوتواُس کا ظاہرکردینا بائع پر واجب ہے ، چھپانا حرام و گناہ کبیرہ ہے۔۔۔ اگر بغیر عیب ظاہر کیے چیز بیع کردی تو معلوم ہونے کے بعدواپس کرسکتے ہیں،  اس کو خیار عیب کہتے ہیں۔  خیار عیب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وقت عقد یہ کہہ دے کہ عیب ہوگاتو پھیر دینگے، کہا ہو یا نہ کہاہوبہر حال عیب معلوم ہونے پر مشتری کوواپس کرنے کا حق حاصل ہوگالہٰذا اگرمشتری کو نہ خریدنے سے پہلے عیب پر اطلاع تھی ، نہ وقت خریداری اُس کے علم میں یہ بات آئی ، بعد میں معلوم ہواکہ اس میں عیب ہے،  تھوڑا عیب ہو یا زیادہ،  خیار عیب حاصل ہے کہ مبیع کو لینا چاہے توپورے دام پرلے لے ، واپس کرنا چاہے واپس کردے ، یہ نہیں ہوسکتاکہ واپس نہ کرے بلکہ دام کم کردے۔(بہار شریعت،ج2،ص673،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

اسی میں ہے: ’’خیار عیب کے لیے یہ شرط ہے کہ۔۔۔ بائع نے عیب سے براء ت نہ کی  ہو۔  اگر اس نے کہہ دیاکہ میں  اس کے کسی عیب کا ذمہ دار نہیں ،  خیار ثابت نہیں۔‘‘(بہار شریعت،ج2،ص674،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-0385

تاریخ اجراء:05 ربیع الآخر 1446ھ /09اکتوبر 2024ء