
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ زید نے مجھےرقم قرض دی پھر کچھ عرصے بعد میں نے وہ رقم زید کو واپس کردی ،لیکن زید کا کہنا ہے کہ مجھے میری رقم واپس نہیں کی،گواہ ہم دونوں کے پاس نہیں ہیں ۔ ایسی صورت میں شریعت مطہرہ ہماری کیا رہنمائی فرماتی ہے؟سائل: قاری بلال
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ آپ رقم کی ادائیگی پر گواہ پیش کریں ، اگرآپ نے گواہ پیش کر دیئے تو آپ قرض کی ادائیگی سے بری ہوں گے۔ گواہ نہ ہونے کی صورت میں زیدسے یہ قسم لی جائے گی کہ اس نے رقم وصول نہیں کی ،اگرزید قسم کھالیتا ہے تو آ پ پر لازم ہوگا کہ زید کو قرض کی ادا ئیگی کریں ۔اور اگر قسم کھانے سے انکار کرتا ہے تو اب آپ پر ادائیگی کرنا شرعاً لازم نہ ہوگا۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
”إذا ادعى أحد كذا درهما من جهة القرض ودفع المدعى عليه الدعوى قائلا: إنني أديت لك ذلك فيسأل حينئذ المدعي هل إن المدعى عليه أدى لك المبلغ المذكور. والمدعي إما أن يقر بالاستيفاء أو ينكر فإذا أنكر وأثبت المدعى عليه أداءه ذلك المبلغ يحكم القاضي بمنع المدعي من دعواه وإذا عجز عن إقامة البينة فللمدعى عليه أن يحلف المدعي على عدم قبضه المبلغ المذكور من المدعى عليه۔۔۔ وإذا نكل المدعي عن حلف اليمين يثبت دفع المدعى عليه۔“
یعنی ایک شخص نے دعوی کیا کہ فلاں کے ذمے میرے کچھ دراہم قرض ہیں،مدعی علیہ(مقروض) نےیہ کہتے ہوئے اس بات کا رد کیا کہ میں تو تمہیں تمہارا قرض ادا کر چکا ہوں،اب مدعی سے پوچھا جائے گا کہ مدعی علیہ (مقروض)نے تمہیں قرض ادا کر دیا ہے یا نہیں،مدعی یا تو وصولیِ قرض کا اقرار کرے گا یا انکار ،انکار کی صورت میں اگر مدعی علیہ (مقروض)نے گواہوں سے اپنا قرض ادا کرنا ثابت کردیا تو قاضی مدعی کا دعوی خارج کردے گا۔ اگر مدعی علیہ یعنی مقروض گواہ پیش نہ کرسکے تو اس کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مدعی یعنی قرض دینے والے سے اس بات پر حلف اٹھوائے کہ اس نے مدعی علیہ یعنی مقروض سے قرض کی رقم وصول نہیں کی۔۔۔اگر مدعی قسم کھانے سے انکار کر دے تو مقروض کا قرض کی رقم واپس دینا ثابت ہو جائے گا ۔(درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام ، جلد 4، صفحہ196 ،دار الکتب العلمیۃ)
عالمگیری میں ہے:
”لو ادعى المديون أنه بعث كذا من الدراهم إليه۔۔۔صحت الدعوى ويحلف“
یعنی مدیون دعوی کرتا ہے کہ میں نے اتنے روپے تمھارے پاس بھیج دیے تھے ۔۔۔ یہ بات مسموع ہوگی اور دائن پرحلف دیا جائیگا ۔(الفتاوی الہندیۃ،جلد4،صفحہ5،مطبوعہ دار الفكر،بیروت)
صدر الشریعہ ،بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں:”دائن نے دین کا دعویٰ کیا مدیون کہتا ہے کہ میں نے اتنے روپے تمھارے پاس بھیج دیے تھے یا فلاں شخص نے بغیر میرے کہنے کے دین ادا کردیا مدیون کی یہ بات مسموع ہوگی اور دائن پرحلف دیا جائیگا ۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ1024،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0121
تاریخ اجراء: 20جمادی الاولی1445ھـ/5 دسمبر3 202ء