قیمت معافی کے بعد خیارِ عیب میں چیز واپس ہوسکتی ہے؟

قیمت معافی کے بعد کیا خیار عیب کی بناء پر چیز واپس کر سکتے ہیں؟

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے  میں کہ زید نے اپنے بھائی بکر سے کوئی چیز خریدی، اور خریداری کے بعد بکر (جو کہ بائع ہے) نے اس چیز کی پوری قیمت زید پر سے معاف کر دی۔  چیز پر قبضہ کرلینے کے بعد زید نے اس چیز میں کوئی عیب پایا جو عقد کے وقت موجود تھا، اور وہ خیارِ عیب کی بنیاد پر اس چیز کو واپس کرنا چاہتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ: کیا زید کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ خیارِ عیب کی بنیاد پر چیز واپس کر کے اس کی وہ قیمت واپس لے جس میں بائع کے ساتھ عقد کیا تھا؟ براہ کرم اس مسئلہ کی وضاحت معتمد کتب کی روشنی میں فرمائیں۔سائل:(یونس، لاہور)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں زید کو یہ حق حاصل نہیں  ہے کہ وہ خیارِ عیب کی بنیاد پر چیز واپس کر کے اس کی وہ قیمت واپس لے جس میں بائع کے ساتھ عقد کیا تھا۔

مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں ہےکہ :

اگربائع (بیچنے والے/Seller)نے کوئی چیز بیچ کر اس کا ثمن معاف کردیا تو مشتری(خریدنے والے/Buyer) کو چیز پر قبضہ کرلینے سے پہلے پہلے خیار عیب کے سبب بالاتفاق واپسی کا اختیار حاصل ہے،البتہ چیز پر قبضہ کرلینے کے بعد خیار عیب کے سبب واپس کرنے کے متعلق فقہائے کرام کا اختلاف ہے ،جس میں صاحب ِ فتاوی قاضی خان علیہ الرحمہ نے یہ قول اختیار فرمایا ہے کہ چیز پر قبضہ کرلینے کے بعد خیار عیب کے سبب واپس کرسکتا ہے۔تاہم دیگر اکثر فقہاء کرام جیسے  ، صاحب ِ مبسوط سرخسی ، صاحب ِ محيط برھانی ، صاحب ِ ذخیرۃ الفتاوی، صاحب ِ خلاصۃ الفتاوی، صاحب ِ فتاوی بزازیہ ، صاحب ِ فتاوی ولوالجیہ  اور صاحب ِ طوالع الانوار  وغیرھم رحمھم اللہ کا مؤقف یہ ہے کہ چیز پر قبضہ کرلینے کے بعد خیار عیب کے سبب واپس نہیں  کرسکتا۔کیونکہ خیارعیب کی وجہ سے واپسی اس لیے ہوتی ہے تاکہ اپنا ادا کیا ہوا ثمن واپس لیا جاسکے جبکہ یہاں پر تو وہ ثمن پہلے ہی معاف ہوچکا ،تو اب خیار عیب کے سبب  واپسی کا مقصد فوت ہوگیا  ۔

یہاں دوسرا قول ہی زیادہ راجح ہے۔ اس کے  راجح ہونے کی  چند وجوہات ہیں:

·       اولا اکثر  کتب ِفقہ میں فقط  یہی قول بیان کیا گیا ہے، اختلاف کو ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اوراکثر یت جس طرف ہو وہ  قول راجح ہوتا ہے۔

·       ثانیا پہلا قول جہاں بھی لکھا گیا اس کی علت مذکور نہیں۔ لیکن دوسرے قول کی علت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔اور  اختلافی مسئلے میں کسی ایک کی علت کو بیان کرناعندالفقہاء  ترجیح کی صورت ہوتی  ہے۔

·       ثالثا  چیز پر قبضہ کرلینے کے بعد خیار عیب کے سبب واپسی کا اختیار  نہ ملنے والا حکم بطورِ استحسان ہےجیساکہ المبسوط للسرخسی میں اس کی صراحت مذکور ہے،اور استحسان کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔

اب جزئیات ملاحظہ فرمائیں:

بائع نے  عقد کے بعدثمن معاف کردیا پھر مشتری نے عیب پایا تو چیز کو واپس کرنے کے متعلق, فتاوی ہندیہ   میں ہے:

" باع عبدا ووهب ثمنه للمشتري أو أبرأه ثم وجد عيبا رد قبل قبضه لا بعده "

یعنی:کسی نے غلام بیچا اور مشتری کو اس کا ثمن ہبہ کردیا یا بائع نے مشتری کو ثمن  معاف کردیا ،بعد میں مشتری نے اس میں عیب پایاتو قبضہ کرنے سے پہلے مشتری کو اختیار ہے کہ وہ چیز واپس کردے ،قبضہ کرلینے کے بعداختیار نہیں ۔(فتاوی ہندیہ،جلد 4،صفحہ 94،مطبوعہ المطبعۃ الکبری الامیریہ)

فتاوی بزازیہ میں ہے:

"اُبرءالمشتری عن الثمن ثم اطلع علی عیب،لایرد ولا یرجع بشئی"

یعنی مشتری کو ثمن معاف کردیا گیا،بعد میں مشتری عیب پر مطلع ہوا تو اب مشتری نہ چیز واپس کرسکتا ہے اور نہ ہی عیب کی وجہ سے آنے والی کمی  کو حاصل کرسکتا ہے۔(فتاوی بزازیہ،جلد 1،صفحہ368،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

چیز پر قبضہ کرلینے کے بعد واپسی کے متعلق المبسوط للسرخسی میں ہے:

"فإن وهب البائع الثمن للعبد أو لمولاه قبل أن يقبضه، ثم وجد بالجارية عيبا لم يكن له أن يردها؛ لأنه لو ردها ردها بغير شيء والمقصود بالرد سلامة الثمن له، وقد سلم له ذلك بطريق الهبة فلا يستوجب عند الرد شيئا آخر وھذا استحسان "

یعنی:اگر بائع نے ثمن (قیمت) غلام کو یا اس کے مالک کو قبضے سے پہلے ہی معاف کردیا، پھر(قبضے کے بعد) خریدار نے لونڈی میں کوئی عیب پایا، تو اب اسے واپس کرنے  کا حق نہیں ہوگا؛ کیونکہ اگر وہ اسے واپس کرے گا تو بغیر کسی معاوضے کے واپس کرے گا، کہ چیز کو واپس کرنے کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ خریدار کو اپنی دی ہوئی رقم واپس مل جائے، اور یہاں تو وہ رقم بطور ہبہ (تحفہ) پہلے ہی اس کے پاس ہے، لہٰذا اب واپسی کی صورت میں  وہ کسی اور چیز کا مستحق نہیں اور یہ مسئلہ بطورِ استحسان ہے۔"(المبسوط للسرخسی،جلد 25،صفحہ162، مطبوعہ دارالمعرفہ ،بیروت)

فتاوی ولوالجیہ میں ہے:

" المشتري إذا وجد بالمشترى عيباً بعدما أبرأه البائع عن الثمن قبل القبض كان له أن یرده، وإن وجد به عيباً بعد القبض، وقد أبرأه البائع عن الثمن لا يرده، ولا يرجع بنقصان العيب "

یعنی:اگر خریدار نے خریدی گئی چیز میں کوئی عیب اس وقت پایا جب کہ بیچنے والے نے ثمن  پہلے ہی اسے معاف کر دیا تھا، اور ابھی چیز قبضہ میں نہیں آئی تھی، تو خریدار کو اسے واپس کرنے کا حق حاصل ہے۔لیکن اگر قبضے کے بعد کوئی عیب پایا، اور بیچنے والے نے قیمت معاف کر دی ہو، تو پھر خریدار نہ اسے واپس کر سکتا ہے، نہ ہی عیب کی وجہ سے کم ہونے والی  قیمت کا مطالبہ کر سکتا ہے۔(فتاوی ولوالجیہ، جلد3،صفحہ 245،مطبوعہ کوئٹہ)

اسی میں ایک اور مقام پر ہے:

" العبد المأذون : إذا اشترى شيئاً، فوجده معيباً، وقد أبرأه البائع من الثمن، أو وهبه له، وقبل العبد لا يملك العبد الرّد بالعيب ؛ لأنه لو رد رد  بغير شيء، فيكون تبرعاً، فلا يملك، ولو كان مكان العبد حراً، إن وجد به عيباً قبل القبض يملك الرد بغير شيء وإن وجد العيب بعد قبض المبيع لا يملك الرد والمسألة قد مرت قبل هذا "

یعنی: اگر کوئی اجازت یافتہ غلام (المأذون) کوئی چیز خریدے، پھر اس میں عیب پائے، جبکہ بیچنے والے نے غلام سے قیمت معاف کر دی ہو، یا وہ چیز غلام کو ہبہ (تحفہ) کر دی ہو، اور غلام نے اسے قبول کر لیا ہو، تو غلام کو خیارِ عیب کی بنا پر وہ چیز واپس کرنے (رد کرنے) کا حق حاصل نہیں ہوگا۔اس لیے کہ اگر وہ چیز واپس کرے، تو وہ بغیر کسی قیمت کے لوٹائے گا، اور یہ محض تبرع شمار ہوگا، اور غلام کو تبرع کا اختیار نہیں ہوتا۔لیکن اگر غلام کی جگہ کوئی آزاد شخص (آزاد انسان) ہو، اور وہ قبضے سے پہلے چیز میں عیب پائے تو بغیر کسی قیمت کے چیز واپس کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن اگر قبضے کے بعد عیب معلوم ہوا، تو اسے بھی واپس کرنے کا حق حاصل نہیں۔یہی مسئلہ اس سے پہلے گزر چکا ہے۔"(فتاوی ولوالجیہ ،جلد3،صفحہ259،مطبوعہ کوئٹہ)

طوالع الانوار وخلاصۃ الفتاوی میں ہے:

واللفظ للاول"اشتری العبد الماذون شیئاوابرءہ البائع عن الثمن لایردہ  بالعیب، وان اشتری حر  لو بعد القبض فکذالک وان قبلہ فلہ الرد لانہ امتناع  عن القبول"

یعنی اگر کسی ماذون غلام نےکوئی چیز خریدی اور بیچنے والے نے اسے قیمت سے بری کردیا تو خریدار عیب کی وجہ سے (وہ چیز) واپس نہیں کرے گا۔ اور اگرماذون غلام کی بجائے  کسی آزاد شخص نے خریداری کی، تو اگر مبیع پرقبضے کرنے کے بعد ہو تو اسی طرح حکم ہوگا (واپس نہیں کرے گا)، اور اگر قبضے سے پہلے ہو تو اس کو واپس کرنے کا حق ہوگا، کیونکہ یہ(بیع کو) قبول کرنے سے امتناع (رکاوٹ/رکنا) ہے۔(طوالع الانوار جلد10،صفحہ121، مخطوطہ)

المحیط البرھانی میں ہے:

" إن من اشترى من آخر عبداً ولم ينقده الثمن حتى وهب البائع الثمن منه، ثم وجد بالعبد عيباً لا يرده، وإنما لا يرد لعدم الفائدة على نحو ما قلنا"

یعنی:اگر کسی نے دوسرے سے غلام خریدا اور ابھی قیمت ادا نہ کی تھی کہ بیچنے والے نے وہ قیمت اسے ہبہ کر دی، پھر خریدار نے غلام میں کوئی عیب پایا، تو اب وہ غلام واپس نہیں کرے گا، اور نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں واپس کرنے کا  کوئی فائدہ باقی نہیں رہا، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔  (المحیط  البرھانی ،جلد 6، صفحہ 593،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

اکثریت جس طرف ہو وہ قول راجح ہوتا ہے،جیساکہ امدادالفتاح،شرح الاشباہ للبیری،درمختار، عقودالدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ وغیرہ کتب فقہ میں موجود ہے:

واللفظ للآخر"أن المقرر عند المشايخ أنه متى اختلف في مسألة فالعبرة لما قاله الأكثر"

یعنی: مشائخ کے ہاں یہ بات مقرر ہے کہ جب کسی مسئلہ میں فقہاء کرام کا اختلاف ہوتوجس قول کی طرف اکثریت ہو وہی قول معتبر (راجح) ہوگا۔(العقودالدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ، جلد 1، صفحہ 169، مطبوعہ دارالمعرفہ)

فتاوی رضویہ شریف میں سیدی اعلی حضرت ،امام اہلسنت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:" اور یہ قاعدہ ہے کہ عمل اس پر کیا جائے جس پر اکثریت ہو جیسا کہ فقہاء نے کتب میں متعدد جگہ اس کی تصریح کی ہے اور ہم نے اس کی تفصیل اپنے رسالے '' بذل الجوائز علی الدعاء بعد صلٰوۃالجنائز'' میں دی ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد8، صفحہ 106، مطبوعہ رضا فانڈیشن ،لاہور)

اختلافی مسئلے میں فقہاء کرام نے جس  کی علت بیان کی ہو ، وہ مسئلہ راجح ہوتا ہے، جیساکہ شرح عقود رسم المفتی میں علامہ شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

" كذا إذا ما واحدا ‌قد ‌عللوا  ‌له وتعليل سواه اهملوا۔۔ ۔(وكذا) لو ذكروا قولين مثلا وعللوا لأحدهما كان ترجيحا له على غير المعلل كما افاده الخير الرملي في كتاب الغصب من فتاواه الخيرية ۔۔۔ لأن ذكر علته يدل على الاهتمام به والحث عليه انتهى "

یعنی:اسی طرح جب فقہاء کسی مسئلہ میں دوقول نقل کرکے ایک کی علت کو بیان کردیں تو وہ قول جس کی علت  بیان کی گئی ہو دوسرے قول پر راجح ہوگا۔۔۔مثلا اگر فقہاء کرام دو اقوال نقل کرکے کسی ایک کو علت کو بیان کردیں  تو وہ قول جس کی علت  بیان کی گئی ہو دوسرے قول(غیر معلل/جس کی علت بیان نہیں کی گئی) پر راجح ہوگا،جیساکہ علامہ خیرالرملی نے اپنے فتاوی خیریہ کی کتاب الغصب میں یہ افادہ بیان کیا۔۔۔کیونکہ اختلافی مسئلے میں ایک قول کی علت کو ذکر کرنا، اس  مسئلے کو اختیار کرنے اور اس پر ترغیب دلانے کی دلیل ہے۔ملتقطا (شرح عقود رسم المفتی لابن عابدین،صفحہ 145،146، مطبوعہ  نشریات وقف الدیانۃ، الترکی)

استحسان کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔جیساکہ ردالمحتار میں علامہ  ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:

 "وكذا لو كان أحدهما استحسانا والآخر قياسا؛ لأن الأصل تقديم الاستحسان"

 یعنی:اسی طرح دو اقوال میں سے ایک استحسان کی قبیل سے ہو اور دوسرا قیاس کی ،(تواستحسان والا مسئلہ ترجیح پاجائے گا) کیونکہ اصل یہ ہے کہ استحسان مقدم ہے۔(ردالمحتار،جلد1،صفحہ72، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب :محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر :Nrl-0307

تاریخ اجراء :18 محرم الحرام1447 ھ/14جولائی2025ء