
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم آرڈرکے مطابق سونے،چاندی کے زیورات وغیرہ بناتے ہیں،کبھی ہمارے پاس کسٹمر زیورات کے بجائے گھریاآفس کی زینت وآرائش کےلیےسونے یا چاندی کی تسبیح کا آرڈر دیتاہے ، معلوم یہ کرناہے کہ کیاہم ایسے شخص کو سونےچاندی کی تسبیح بناکر دے سکتے ہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آپ کاسجاوٹ کے لیے سونے یاچاندی کی تسبیح کاآرڈر دینے والے کو تسبیح تیار کرکے دیناجائزہے،البتہ جو شخص پڑھنے کے لئے سونے چاندی کی تسبیح بنوا رہا ہو، ایسے شخص کو تسبیح بنا کر دینا جائز نہیں۔
اس مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سونے چاندی کی تسبیح پڑھنے کے لئے استعمال کرنا ، ناجائز و حرام ہےلیکن سجاوٹ کے لئے سونے چاندی کی چیزوں کا استعمال جائز ہے لہٰذا اگر کوئی جائز استعمال مثلا زینت و آرائش کے لئے سونے چاندی کی اشیاء بنا کر دے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔
پوچھی گئی صورت میں اگر کسٹمر سونے چاندی کی تسبیح محض زیب و آرائش کے لئے تیار کروا رہا ہو کہ اسے مکان ، دوکان یا گاڑی وغیرہ میں لٹکائے گا تو اس صورت میں تسبیح بنا کر دینا جائز ہے لیکن اگر خریدار کا مقصد تسبیح کا استعمال ہویعنی وہ تسبیح پڑھنے کے لئے بنوا رہا ہو تو ایسی صورت میں سونے یا چاندی کی تسبیح بنانا،ناجائز و حرام ہوگا کہ جب پڑھنا گناہ ہے تو پڑھنے کے لئے تیار کر کے دینا بھی گناہ پر معاونت کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔
سجاوٹ کے لئے سونے چاندی کی چیزوں کوبنانے میں کوئی حرج نہیں،چنانچہ اس کے متعلق علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ رد المحتار میں فرماتے ہیں:
’’ان تحریم الذھب والفضہ فیما یرجع استعمالہ الی البدن ای فیما یستعمل بہ لبسا او اکلا او کتابۃ و یحتمل ان المراد فیما یرجع نفعہ الی البدن لکن لا یشمل استعمال القلم و الدواۃ والاحسن ما فی القھستانی حیث قال وفی الاستعمال اشعار بانہ لا باس باتخاذ الاوانی منھا للتجمل‘‘
یعنی: بیشک سونے چاندی کابدنی استعمال حرام ہے جبکہ ان چیزوں کو پہنا جائے ،ان سےکھایا جائے یا لکھا جائے ،اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ان کی حرمت اس وقت ہے جبکہ بدنی نفع دیتی ہوں، لیکن اس احتمال میں قلم اور دوات شامل نہیں ہو پائیں گے،بہتر ین و ہی ہے جو قہستانی میں ذکرہے جہاں فرماتے ہیں استعمال کے لفظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ سونے چاندی کے برتنوں کو سجاوٹ کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘(رد المحتار،جلد9،صفحہ566،مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت)
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’سونے چاندی کی چیزیں محض مکان کی آرائش و زینت کے لیے ہوں ، مثلاً قرینہ سےیہ برتن و قلم و دوات لگا دیے،کہ مکان آراستہ ہوجائے، اس میں حرج نہیں،یوہیں سونے چاندی کی کرسیاں یا میز یا تخت وغیرہ سے مکان سجا رکھا ہے، ان پر بیٹھتا نہیں ہے تو حرج نہیں۔‘‘(بہار شریعت،جلد3،صفحہ396،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
سونے چاندی کی تسبیح کا استعمال حرام ہےچنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہواکہ تسبیح کس چیز کی ہونی چاہیے؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:’’تسبیح لکڑی کی ہو یا پتھر کی مگر بیش قیمت ہونا مکروہ ہےاور سونےچاندی کی حرام۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ597،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتےہیں: ’’یہ اصل کلی یاد رکھنے کی ہے کہ بہت جگہ کام دے گی: جس چیز کا بنانا،ناجائز ہوگا،اسے خریدناکام میں لانا بھی ممنوع ہوگا اور جس کا خریدنا،کام میں لانا منع نہ ہوگا،اس کا بنانا بھی ناجائز نہ ہوگا۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد 23،صفحہ 464،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-382
تاریخ اجراء:28ربیع الاول 1446ھ/3اکتوبر2024ء