
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی نے نفس و شیطان کے بہکاوے میں آکر کچھ رقم بطور رشوت لے لی ہو، اب وہ اس گناہ سے خلاصی حاصل کرنا چاہتا ہے تو کیا وہ رشوت میں لی گئی رقم کسی شرعی فقیر کو صدقہ کرسکتا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رشوت لینا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور رشوت لینے والااس مال کا مالک بھی نہیں بنتا لہذا رشوت لینے والے پر سب سے پہلے تو یہ لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے سچی توبہ کرے اور پھر جس جس سے رشوت کا مال لیا ہے ان کو واپس کرے اور اگر وہ نہ رہے ہوں تو ان کے ورثاء کو واپس کرے۔اصل مالک کی موجودگی کے باوجود اسے اس کامال لوٹانے کی بجائے شرعی فقیر کو صدقہ کردیا تو بری الذمہ نہ ہوگا۔ ہاں اگر اصل مالک اور اس کے ورثاء کا پتہ نہ چلے، نہ آئندہ ملنے کی امید ہو اور یہ انہیں تلاش کرنے کی حتی الامکان پوری کوشش کرچکا ہو تو اب ان کی طرف سےشرعی فقیر کو بطور صدقہ دے سکتا ہے البتہ اگر بعد میں مالک یا اس کے ورثاء مل گئے اور وہ اس صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوں تو انہیں ان کی رقم واپس کرنا ہوگی۔
رشوت کا مال اصل مالکان کو لوٹانے سے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ويردونها على اربابها ان عرفوهم والا تصدقوا بها لان سبيل الكسب الخبيث التصدق اذا تعذر الرد على صاحبهیعنی
ایسا مال اصل مالکوں کو واپس کریں گےاگر انہیں جانتے ہوں ورنہ وہ مال صدقہ کردیں گے کیونکہ جب اصل مالک کو لوٹانا ممکن نہ رہے تو کسب خبیث سےچھٹکارا حاصل کرنے کی یہی صورت ہوتی ہے ۔(رد المحتار مع درمختار ،ج9،ص635، مطبوعه پشاور)
رشوت میں لی جانے والی رقم کا حکم بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: ’’ جومال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل کیا اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں‘‘۔۔۔
اصل مالک کی موجودگی کے وقت مال رشوت اسی کو لوٹانا ضروری ہے جیسا کہ اسی سوال کے جواب میں کچھ آگے چل کر اس کی وجہ بیان کرتےہوئے امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وذلک لان الحرمۃ فی الرشوۃ وامثالھا لعدم الملک اصلا فھو عندہ کالمغصوب فیجب الرد علی المالک او ورثتہ ما امکن
یعنی:اس کی وجہ یہ ہے کہ رشوت اور اس جیسے اموال میں حرمت اصلا ہی ملکیت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے لہذا وہ مال رشوت لینے والے کے پاس غصب شدہ مال کی طرح ہے،اسی وجہ سے وہ مال حتی الامکان اس کے مالک یا اس کے ورثاء کو لوٹانا واجب ہے۔ (فتاوی رضویہ ،ج23،ص551، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
سچی توبہ اور اس کے تقاضوں سے متعلق امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شے بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالے کو کافی ووافی ہے، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر۔ سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پراس لیے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی، نادم وپریشان ہو کرفوراً چھوڑ دے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پُورا عزم کرے، جو چارۂ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہوبجا لائےمثلاً نماز روزے کے ترک یا غصب، سرقہ، رشوت، رباسے توبہ کی تو صرف آئندہ کے لیے ان جرائم کا چھوڑ دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے جو نماز روزے ناغہ کیے ان کی قضا کرے، جو مال جس جس سے چھینا، چرایا، رشوت، سود میں لیا انہیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو واپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے تو اتنا مال تصدق کردے اور دل میں نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگر تصدق پر راضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انہیں پھیر دوں گا۔‘‘(فتاوی رضویہ ،ج21،ص121، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
بہارِ شریعت میں ہے:”جس شخص نے ظلم یا رشوت کے طور پر مال حاصل کیا ہو، مرنے کے بعد اس کا مال ورثہ کو نہ لینا چاہیے کہ یہ مال حرام ہے۔بلکہ ورثہ یہ کریں کہ اگر معلوم ہے کہ یہ مال فلاں کا ہےتو جس سے مورث نے حاصل کیا ہے، اسے واپس دے دیں اور معلوم نہ ہو کہ کس سے لیا ہے توفقراء پر تصدق کردیں کہ ایسے مال کا یہی حکم ہے۔“(بهار شریعت،ج3،ص481،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0193
تاریخ اجراء:07 شوال المکرم 1445ھ/16اپریل 2024ء