
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آسمان میں بادل آتے ہیں تو گرج، چمک پیدا ہوتی ہے اور بسا اوقات بجلی بھی گرتی، شریعت مطہرہ میں اس کی کیا حقیقت ہے اور ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یہ سب چیزیں اللہ پاک کی قدرت اور اس کے وجود کے دلائل ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات موجود ہے، وحدہ لاشریک ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ اس کی حقیقت کے متعلق حدیث پاک میں ہے کہ:
رعد نامی ایک فرشتہ ہے، جس کے پاس آگ کا کوڑا ہے، جس کے ساتھ وہ بادلوں کو ہانکتا اور چلاتا ہے، یہ آواز اس کے ہانکنے کی آواز ہے۔
اورچمک کے متعلق کتابوں میں ہے کہ یہ اس کوڑے کی چمک ہے، جس سے وہ بادلوں کوہانکتاہے۔
یاد رہے اس کے فوائد ونقصانات اپنی جگہ ہیں لیکن یہاں یہ بیان کرنا زیادہ اہم ہے کہ ہماری شریعت مطہرہ اس بارے میں کیا تعلیم دیتی ہے اور اس وقت کیا کرنا چاہئے۔ احادیث میں آیا ہے کہ ایسی صورتحال میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم مختلف قسم کی دعا ئیں مانگا کرتے، لہذا اس وقت ہمیں بھی یہی اعمال بجالانے چاہئیں نہ کہ اس کو تفریح کا سبب بنانا چاہئے۔(اس وقت پڑھی جانے والی دعاؤں کاذکرنیچے آرہاہے۔)
قرآن پاک میں ہے
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُنَزِّلُ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ رِزْقًا وَ مَا یَتَذَكَّرُ اِلَّا مَنْ یُّنِیْبُ(13) فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(14)
ترجمہ کنز العرفان: وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے روزی اتارتا ہے اور نصیحت نہیں مانتا مگر وہی جو رجوع کرے۔ تو اللہ کی بندگی کرو، خالص اسی کے بندے بن کر، اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو۔ (القرآن الکریم، پار 24، سورۃ المومن، آیت: 13 ، 14)
اس کے تحت صراط الجنان میں مختلف تفاسیر سے منقول ہے
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ: وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔
اس سے پہلی آیات میں مشرکوں کا دردناک انجام بیان ہو ا اور اب یہاں سے وہ چیزیں بیان کی جا رہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت،حکمت اور وحدانیّت پر دلالت کرتی ہیں، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! اللہ صرف وہی ہے جو تمہیں اپنی مصنوعات جیسے ہوا،بادل اور بجلی وغیرہ کے عجائبات دکھاتا ہے جو اس کی قدرت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں اور تمہارے لیے آسمان کی طرف سے بارش برساتا ہے جو کہ روزی ملنے کا سبب ہے اوران نشانیوں سے وہی نصیحت حاصل کرتا اور نصیحت مانتا ہے جوتمام اُمور میں اللہ تعالیٰ کی طرف رُجوع کرنے والا اور شرک سے تائب ہو کیونکہ سرکش انسان نہ نصیحت حاصل کرتا ہے اور نہ ہی نصیحت قبول کرتا ہے،تو اے لوگو! تم پر لازم ہے کہ شرک سے کنارہ کشی کر کے اور خالص اللہ کے بندے بن کر صرف اللہ تعالی کی عبادت کرو اگرچہ کافروں کو یہ بات ناپسند ہو۔ (صراط الجنان، جلد 8، صفحہ 531 ، 532، طبع: مکتبۃ المدینہ)
دوسری آیت مبارکہ میں ہے
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَیُحْیٖ بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(24)
ترجمہ کنز العرفان: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہیں ڈرانے اور (بارش کی) امید دلانے کیلئے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی اتارتا ہے تو ا س کے ذریعے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے۔بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (القرآن الکریم، پارہ 21، سورۃ الروم، آیت: 24)
اس کے تحت صراط الجنان میں ہے ”آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تمہیں ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھانا اور آسمان سے پانی اتار کر بنجر زمین کو سرسبزو شاداب کر دینا ا س کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ جب بادلوں میں بجلی چمکتی ہے تو بسا اوقات تم خوفزدہ ہو جاتے ہو کہ کہیں یہ گر کر نقصان نہ پہنچا دے اور کبھی تمہیں اس سے یہ امید ہوتی ہے کہ اب بارش برسے گی۔ (صراط الجنان، جلد 7، صفحہ 436، طبع: مکتبۃ المدینہ)
سنن ترمذی میں حدیث پاک منقول ہے
عن ابن عباس، قال: أقبلت يهود إلى النبي صلى الله عليه و سلم، فقالوا: يا أبا القاسم، أخبرنا عن الرعد ما هو؟ قال: ملك من الملائكة موكل بالسحاب معه مخاريق من نار يسوق بها السحاب حيث شاء الله فقالوا: فما هذا الصوت الذي نسمع؟ قال: زجرة بالسحاب إذا زجره حتى ينتهي إلى حيث أمر قالوا: صدقت
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں ایک مرتبہ یہودی، حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی اے ابو القاسم ہمیں رعد کے بارے میں بتائیں وہ کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے ، اس کے ساتھ آگ کے کوڑے ہیں جن سے بادلوں کو چلاتا ہے جہاں کا اللہ پاک حکم دیتا ہے، انہوں نے عرض کی پھر یہ آواز کیسی جو ہم سنتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ بادلوں کو ہانکنے کی آواز ہے جب فرشتہ انہیں ہانکتا ہے، یہاں تک کہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے، انہوں کہا: آپ نے بالکل سچ فرمایا۔ (سنن الترمذی، جلد 5، صفحہ 294، حدیث: 3117، طبع: مصر)
اسی طرح مرقاۃالمفاتیح میں ہے
روي: أنه صلى الله عليه و سلم قال:بعث الله السحاب فنطقت أحسن النطق و ضحكت أحسن الضحك، فالرعد نطقها، و البرق ضحكها" و قيل: البرق لمعان سوط الرعد يزجر به السحاب
ترجمہ: مروی ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے بادل بھیجے تو انہوں نے اچھا کلام کیا اور اچھی طرح ہنسے ، پس گرجنا ان کا کلام ہے اور چمکنا(بجلی) ان کا ہنسنا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ بجلی، وہ رعد فرشتے کے کوڑے کی چمک ہے جس کے ساتھ وہ بادلوں کوہانکتا،چلاتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 3، صفحہ 1119، طبع: بیروت)
مراٰۃ المناجیح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”رعداس فرشتہ کا نام ہے جو بادلوں پر مقرر ہے اور صاعقہ اس کاکوڑا ہےجس سے وہ بادلوں کو ہانکتا چلاتا ہے، کبھی اس کوڑے کی آواز سنی جاتی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رعد فرشتہ اس وقت تسبیح کرتا ہے، یہ آواز اس کی تسبیح کی ہوتی ہے۔۔۔ مرقاۃ نے فرمایا رعد سننے میں آتی ہے اور صاعقہ دیکھنے میں۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 402، طبع: نعیمی کتب خانہ، گجرات)
گرج وکڑک کے وقت پڑھی جانے والی دعائیں:
اس وقت دعا کرنی چاہئے، چنانچہ مشکاۃ المصابیح میں حدیث پاک منقول ہے
و عن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه و سلم: كان إذا سمع صوت الرعد و الصواعق قال: «اللهم لا تقتلنا بغضبك و لا تهلكنا بعذابك و عافنا قبل ذلك»
ترجمہ: روایت ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ و سلم جب گرج وکڑک کی آواز سنتے تو کہتے کہ الٰہی ہمیں اپنے غضب سے غارت نہ کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کر، اس سے پہلے ہمیں عافیت دے۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ 482، حدیث: 1521، طبع: بیروت)
اسی طرح مؤطا امام مالک میں ایک حدیث پاک منقول ہے
مالك عن عامر بن عبد الله بن الزبير أنه كان إذا سمع الرعد ترك الحديث، و قال: سبحان الذي يسبح الرعد بحمده والملائكة من خيفته. ثم يقول: إن هذا لوعيد لأهل الأرض شديد
ترجمہ: امام مالک، عامر بن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے راوی ہیں کہ جب آپ گرج سنتے توبات چیت چھوڑ دیتے اور کہتے: پاک ہے وہ ذات کہ گرج جس کی تسبیح وحمدکرتی ہے اور فرشتے اس کے خوف سے ، پھر فرماتے بے شک یہ زمین والوں کے لئے سخت وعید ہے۔ (المؤطا لمالک، کتاب الکلام، جلد 2، صفحہ 992، حدیث: 26، طبع: بیروت)
مراٰۃ المناجیح میں اس حدیث پاک کے تحت ہے "یعنی الله کے خوف سے یا رعدفرشتے کے خوف سےتسبیح کرنے لگتے ہیں ،حضرت عبد الله ابن عباس فرماتے ہیں کہ جوشخص گرج کے وقت یہ آیت پڑھ لے وہ بفضلہٖ تعالٰی اس سے ہلاک نہیں ہوسکتا،اگر ہلاک ہوجائے تو اس کا خون بہا میرے ذمہ ہے،گویا آپ کوحضورصلی الله علیہ و سلم کے اس فرمان پر اس قدر اعتماد تھا۔" ( مرآۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 402، طبع: نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4035
تاریخ اجراء: 23 محرم الحرام 1447ھ / 19 جولائی 2025ء