کیا خالہ ماں کے قائم مقام ہوتی ہے؟

اسلام میں خالہ کے رشتے کی اہمیت

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا ماں کی وفات کے بعد خالہ ماں کے قائم مقام ہوتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بلا شبہہ سگی خالہ ادب و احترام اور تعظیم و توقیر وغیرہ کئی معاملات میں حقیقی ماں کے قائم مقام ہے اور ماں کی وفات کے بعد اور زیادہ حسن سلوک کی مستحق ہے، مگر بہت سارے شرعی احکام مثلاً وراثت، وصیت وغیرہ میں حقیقی والدہ کے برابر ہرگز نہیں ہوتی۔

صحیح بخاری، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، مسند احمد اور مسند دارمی وغیرہ کی حدیث پاک میں ہے:

”(و اللفظ للاول) الخالة بمنزلة الأم“

ترجمہ:  خالہ ماں کے قائم مقام ہے۔ (صحيح البخاري، رقم الحدیث 4251، ج 5، ص 141، دار طوق النجاۃ)

علامہ بدر الدین ابو محمد محمود عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:

”أي في الحنو و الشفقة“

ترجمہ: یعنی مہربانی اور شفقت کے معاملے میں (خالہ ماں کی طرح ہوتی ہے)۔ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري، جلد 17، صفحہ 264، دار الفكر، بيروت)

المعجم الکبیر، شرح معانی الآثار، کنزالعمال میں ہے:

”(و اللفظ للاول) عن أبي مسعود قال: قال النبي صلى الله عليه و سلم: الخالة والدة“

ترجمہ: حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: خالہ ماں ہے۔ (المعجم الكبير للطبراني، جلد 17، صفحہ 243، حدیث 677،  مطبوعہ قاھرۃ)

علامہ زین الدین محمد عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

”(الخالة بمنزلة الأم) في الحضانة عند فقد الأم و أمهاتها لأنها تقرب منها في الحنو و الشفقة و الإهتداء إلى ما يصلح الولد۔۔۔ (الخالة والدة) أي مثل الأم في استحقاق الحضانة لما ذكر“

ترجمہ: ماں اور نانی کے نہ ہونے کے وقت بچے کی پرورش کے معاملے میں خالہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے؛ کیونکہ وہ مہربانی، شفقت اور بچے کی بھلائی جاننے میں ماں کے قریب ہوتی ہے۔ "خالہ ماں ہے" سے مراد حق پرورش میں ماں کی طرح ہونا ہے،  اسی وجہ کی بنا پر جو (ابھی) ذکر ہوئی۔(فيض القدير شرح الجامع الصغير، جلد  3، صفحه  502، مطبوعہ مصر)

مفتی محمد خلیل خان برکاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ   لکھتے ہیں: ”خالہ جب کہ سگی ہو تو وہ اپنے ادب و احترام اور تعظیم و توقیر اور دوسرے احکام میں بالکل حقیقی ماں کی مانند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کا شمار محرمات یعنی ان عورتوں میں فرمایا جو مرد پر حرام ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بہت  سے احکام میں ماں سے جدا۔ مثلاً ذوی الفروض و عصبات کے ہوتے یہ ایک دوسرے کے وارث نہیں، یا ان میں سے کوئی  دوسرے کے حق میں وصیت کر جائے تو وہ ایک تہائی میں نافذ ہو گی، حالانکہ وارث کے لئے وصیت معتبر نہیں۔ یوہیں خالہ ماں  کی جگہ ہے ماں نہیں، اور جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

﴿اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا اﻼ وَلَدْنَهُمْ (المجادلۃ: 2)

ان کی مائیں تو وہی ہیں جن سے یہ پیدا ہیں۔“ (فتاوی خلیلیہ، جلد 3، صفحہ 173،  ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3840

تاریخ اجراء: 16 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 14 مئی 2025 ء