ختنہ شدہ پیدا ہونے والے بچے کے ختنے کا حکم

بچہ ختنہ شدہ پیدا ہوا تو اس کے ختنے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک سوال پوچھنا تھا کہ ایک بہن کا بیٹا ہوا ہے اور اُس کے ختنہ پہلے سے ہی کیے ہوئے ہیں، تو کیا دوبارہ ختنہ کروانے پڑیں گے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر واقعی بچہ ختنہ شدہ پیدا ہوا ہے یعنی وہ پیدا ہی اس حالت میں ہوا ہے کہ جوکھال ختنے میں کاٹی جاتی ہے، وہ اس میں نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کاختنہ نہیں کیاجائے گاکہ اس کی حاجت ہی نہیں۔ منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک میں ہے

"و لو ولد مختوناً: لا يقطع منه شيء"

ترجمہ: اور اگر بچہ ختنہ شدہ پیدا ہو تو اس کی کوئی چیزنہیں کاٹی جائے گی۔ (منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک، کتاب الکراھیۃ، ص 426، مطبوعہ: قطر)

بہارشریعت میں ہے "بچہ پیدا ہی ایسا ہوا کہ ختنہ میں جو کھال کاٹی جاتی ہے وہ اس میں نہیں ہے تو ختنہ کی حاجت نہیں۔" (بہارشریعت، ج 03، حصہ 16، ص 589، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-3923

تاریخ اجراء: 16 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 13 جون 2025 ء