
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ نابالغ سمجھدار بچہ اگر درست عبادت کرے مثلا رمضان کا روزہ صحیح رکھا یا نماز صحیح ادا کرتا ہے، تو کیا اسے ان عبادات کا ثواب ملے گا؟ ہم نے سنا ہے کہ نابالغ مکلف نہیں ہوتا، اس لئے انہیں گناہ کی طرح ثواب بھی نہیں ملتا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نابالغ سمجھدار بچہ عبادات کا مکلف تو نہیں ہوتا، لیکن وہ جو عبادت کرتا ہے، اس پر اللہ تبارک وتعالی اسے اجر و ثواب عطا فرماتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے:
’’لقي ركبا بالروحاء، فقال: من القوم؟ قالوا: المسلمون،فقالوا:من انت؟ قال: رسول الله،فرفعت اليه امراة صبيا، فقالت: الهذا حج؟ قال: نعم! و لك اجر‘‘
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ و سلم روحاء کے مقام پر کسی قافلہ سے ملے، تو ارشاد فرمایا: تم کس قوم سے تعلق رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم مسلمان ہیں، پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: اللہ کا رسول ہوں۔ ایک عورت بچے کو اٹھائے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی: کیااس بچے کا بھی حج ہو سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: جی ہاں! اور تجھے بھی ثواب ملے گا۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب صحۃ حج الصبی و اجر من حج بہ، ج 1، ص 431، مطبوعہ کراچی)
مذکور بالاروایت کے تحت عمدۃ القاری میں ہے:
’’ان المراد ان ذلك بسبب حملها له و تجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم و استدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته و يكتب له حسناته و هو قول اكثر اهل العلم‘‘
ترجمہ: اس سے مراد یہ ہے کہ بیشک عورت کو بچہ اٹھانے اور محرم کو جن چیزوں سے بچنے کا حکم ہے، ان سے بچے کو بچانے کی وجہ سے ثواب دیا جائے گا۔ بعض علماء نے اس حدیث کی بناء پر یہ استدلال کیا ہے کہ بچے کو طاعت (نیک کام) پر ثواب ملتا ہے اور اس کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں، یہی اکثر اہلِ علم کا قول ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج 7، ص 553، مطبوعہ ملتان)
ردالمحتار میں ہے:
”الصحیح ان حسنات الصبی لہ و لوالدیہ ثواب التعلیم“
ترجمہ:صحیح قول یہ ہے کہ بچے کی نیکیاں بچے کے لئے ہیں اور اس کے والدین کو تعلیم دینے کا ثواب ملتا ہے۔ (رد المحتار، ج 01، ص 529، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
الاشباہ و النظائر میں ہے:
’’و تصح عباداته و ان لم تجب عليه و اختلفوا في ثوابها و المعتمد انه له و للمعلم ثواب التعليم و كذا جميع حسناته‘‘
ترجمہ: بچے پر اگرچہ عبادات واجب نہیں، لیکن (اگر وہ عبادات کرتا ہے، تو) اس کی عبادات درست ہیں اور اسے عبادات کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں اختلاف ہے اور معتمد قول یہ ہے کہ اسے ثواب ملتا ہے اور معلم کو بھی تعلیم کا ثواب ملے گا، یہی حکم بچے کی تمام نیکیوں کا ہے۔ (الاشباہ و النظائر، ص 264، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: عبد الرب شاکر عطاری مدنی
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Sar-9361
تاریخ اجراء: 07 ذو الحج 1446 ھ/ 04 جون 2025 ء