
مجیب:مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3627
تاریخ اجراء:02رمضان المبارک 1446ھ/03مارچ2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی جانور کے بال کاٹ دیئے جائیں تو کیا اس جانور کی قربانی درست ہوجائے گی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس جانورکے بال کاٹ دئیے گئے ہوں اس کی قربانی درست ہے ۔ البتہ! جس جانور پر قربانی کی نیت کرلی جائے ، اس کے بال اپنے کسی کام کے لیے کاٹ لینا مکروہ و ممنوع ہے اور اگر کاٹ لئے تو اسے صدقہ کردے۔فتاوی ہندیہ میں ہے” والحولاء تجزئ وهي التي في عينها حول، وكذا المجزوزة وهي التي جز صوفها، كذا في فتاوى قاضي خان“ترجمہ:حولاء جانور کی قربانی جائز ہے اور یہ وہ جانور ہےجس کی آنکھ میں بھینگاپن ہو اور مجزوزہ کی قربانی بھی جائز ہے،یہ وہ جانور ہے جس کی اُون کاٹ لی گئی ہو،اسی طرح فتاوی قاضی خان میں ہے۔(فتاوی ہندیہ،ج 5، ص 298،دار الفکر،بیروت)
بہارشریعت میں ہے " بھیڑ یا دنبہ کی اون کاٹ لی گئی ہو اس کی قربانی جائز ہے ۔"( بہار شریعت ، ج 3 ، حصہ15 ، ص 341 ، مکتبۃ المدینہ )
منفعت حاصل کرنے کے متعلق فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :” والسر فی ذٰلک مایستفاد من کلمات العلماء الکرام ان اصل القربۃ فی الاضحیۃ انما تقوم باراقۃ الدم لوجہ ﷲ تعالی فمالم یرق لایجوز الانتفاع بشیئ منہ حتی الصوف واللبن وغیر ذٰلک لانہ نوی اقامۃ القربۃ بجمیع اجزائھا“ترجمہ : اور قربانی کے جانور سے انتفاع کی ممانعت کا راز جو کلماتِ فقہاء سے مستفاد ہوتاہے وہ یہ ہے کہ قربانی میں اصلِ قربت اللہ تعالی کی رضا کے لئے خون بہانے سے قائم ہوتی ہے، تو جب تک یہ قربت واقع نہیں ہو گی ، قربانی کے جانور سے ہر قسم کا نفع اٹھانا ، جائز نہیں ہو گا ، حتی کہ اُون اور دودھ وغیرہ سے بھی ، اس لیے کہ وہ جانور کے جمیع اجزاء کے ساتھ قربت کی نیت کرچکا۔ (فتاویٰ رضویہ، ج20،ص511 ، 512، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
بہار شریعت میں ہے” ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کے لیے کاٹ لینا یا اس کا دودھ دوہنا مکروہ و ممنوع ہے۔۔۔۔ اگر اس نے اون کاٹ لی یا دودھ دوہ لیا تو اسے صدقہ کر دے ۔" ( بہار شریعت ، ج 3 ، حصہ15 ، ص 347 ، مکتبۃ المدینہ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
بیٹے باپ کے کام میں معاون ہیں تو کیا ان پر بھی قربانی واجب ہوگی؟
جس جانور کے سینگ کاٹ دیے اس کی قربانی کرنا کیسا؟
جس کا اپنا عقیقہ نہ ہوا ہو کیا وہ اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے؟
جانور کا ایک خصیہ نہ ہوتو کیا قربانی جائز ہے؟
اجتماعی قربانی کی رقم معاونین کواجرت میں دینا کیسا؟
بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟
عقیقے کے گوشت سے نیاز کرسکتے ہیں یانہیں؟
سینگ جڑ سے ٹوٹ گئے قربانی جائز ہے یانہیں؟