بغیر دانت والے بیل کی قربانی کا حکم

بغیر دانت والے بیل کی قربانی

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتےہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ ایسا بیل جس کی عمْر تو پوری ہو چکی ہو لیکن ابھی تک اس کے دانت نہ نکلے ہوں، اس کی قربانی کرنے کا شرعاً کیا حکْم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ایسا بیل جس کی عمْر اسلامی اعتِبار سے دو سال مکمّل ہو اور اس میں قربانی سے مانِع (روکنے والا) کوئی بھی عیب نہ ہو تو اسکی قربانی بلا شبہ جائز ہے، اگرچہ ابھی تک اس کے سامنے والے دو بڑے دانت نہ نکلے ہوں (جن کی وجہ سے جانور کو عُرْف میں ’’دوندا یعنی دو دانت والا‘‘ کہا جاتا ہے) کیونکہ شریعت کی طرف سے قربانی کے جانوروں کی مُقَرَّر کردہ عمْر کا پورا ہونا ضروری ہے، بڑے دانت نکلنا ضروری نہیں۔

البتّہ یہ یاد رہے کہ سامنے کے دوبڑے دانتوں کا نکلنا جانور کی عمر پوری ہونے کی علامت ہے، کیونکہ اونٹ کے پانچ سال کی عمر کے بعد، گائے وغیرہ کے دوسال بعد اور بکری وغیرہ کے ایک سال کے بعد ہی دانت نکلتے ہیں، اس سے پہلے نہیں، لہٰذا اگر کسی جانور کے دانت نہ نکلے ہوں تو خریدنے سے پہلے اچھی طرح تسلّی کر لی جائے کہ اس کی عمرمکمل ہے یا نہیں، اگر شک ہو تو ایسے جانور کو قربانی کے لئے نہ خریدا جائے، خصوصا ً اس دور میں کہ جس میں جھوٹ بول کر جانور بیچنا عام ہو چکا ہے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2017ء