مقروض شخص پر قربانی کرنے کا شرعی حکم

مقروض کی قربانی کا مسئلہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کسی شخص پر قرض ہے جس کی وجہ سے اس پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی تو کیا اس پر قربانی فرض ہوگی؟ اور اگر قربانی فرض نہ ہو اور کرلی تو کیا قربانی ہوجائے گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اولا یہ ذہن نشین فرما لیں کہ ایسا ممکن ہے کہ کسی شخص پر زکوۃ فرض نہ ہو مگر قربانی فرض ہو کیونکہ زکوۃ کے نصاب میں تو صرف مال نامی یعنی سونا، چاندی، کرنسی اور مال تجارت کا ہی شمار ہوتا ہے جبکہ قربانی کے نصاب میں اس کے ساتھ ساتھ حاجت اصلیہ سے زائد ہر چیز کا شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ فرق ہے جیسے زکوۃ میں نصاب پر سال گزرنا شرط ہے جبکہ یہاں شرط نہیں ہے۔  لہذا اگر اس شخص کے پاس قرض اور حاجت اصلیہ کو مائنس کرنے کےبعد ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تو لے چاندی، یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ سے زائد کسی بھی قسم کا مال ہو خواہ تنہا یا چند اموال کو ملا کر اتنی مالیت بن جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی جبکہ لزوم کی دیگر شرائط بھی مکمل ہوں، اور اگر حاجت اصلیہ کے علاوہ تمام اموال کوجمع کر کے اس میں سے قرض مائنس کیا جائے تو اتنی مالیت کا مال باقی نہیں بچ رہا تو قربانی واجب نہیں ہوگی۔ اور جس پر قربانی لازم نہ ہو وہ اگرقربانی کرے گا تو نفلی قربانی ہو جائے گی اور اس کا ثواب ملے گا۔

قربانی واجب ہونے کانصاب بیان کرتے ہوئےبدائع الصنائع میں علامہ ابوبکربن مسعود کاسانی حنفی (متوفی 587 ھ) فرماتے ہیں:

"فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه و ما يتأثث به و كسوته و خادمه و فرسه و سلاحه و مالا يستغنی عنه و هو نصاب صدقة الفطر"

ترجمہ: (قربانی میں) مالداری کااعتبارہوناضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دو سو درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی) یا بیس دینار (ساڑھے سات تولہ سونا) ہوں یا رہائش، خانہ داری کے سامان، کپڑے، خادم، گھوڑا، ہتھیار اور وہ اشیاء جن کے بغیرگزارہ نہ ہو، ان کے علاوہ کوئی ایسی چیز ہو، جو اس (دو سو درہم یا بیس دینار) کی قیمت کوپہنچتی ہو اور یہ ہی صدقہ فطر کا نصاب ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب التضحیۃ، ج 5، ص 64، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

در مختار میں ہے

"(تجب علی کل مسلم ذی نصاب فاضل عن حاجتہ الاصلیۃ و ان لم ینم، و بہ) ای بھذا النصاب (تحرم الصدقۃ) و تجب الاضحیۃ، ملتقطا"

ترجمہ: صدقہ فطر ہر مالک نصاب مسلمان پر کہ اس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہو اگرچہ یہ نصاب نامی نہ ہو، واجب ہے اور اسی نصاب کی وجہ سے اس کے لئے صدقات واجبہ لینا حرام ہیں اور اسی نصاب کی وجہ سے اس پر قربانی واجب ہوگی۔(در مختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، ج 2، ص 358 ،359 ،360، دار الفکر، بیروت(

فتاوی ہندیہ میں ہے

"فالتضحية نوعان واجب و تطوع۔۔۔ و أما التطوع: فأضحية المسافر و الفقير الذي لم يوجد منه النذر بالتضحية و لا شراء الأضحية لانعدام سبب الوجوب و شرطه"

ترجمہ: قربانی کی دو قسمیں ہیں، واجب اور نفل: بہرحال نفل قربانی تو مسافر کی قربانی نفلی ہوگی، یونہی جس فقیر نے قربانی کی منت نہیں مانی اور سببِ وجوب و شرطِ وجوب نہ پائے جانے کی وجہ سے قربانی کا جانور بھی نہیں خریدا، وہ فقیر اگر قربانی کرے تو نفل کہلائے گی۔ (فتاوی ہندیہ، ج 5، ص 291، دار الفکر، بیروت)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں: " مقدار نصاب سب کے لیےایک ہے کچھ فرق نہیں، ہاں زکوٰۃ میں مال نامی ہونا شرط ہے کہ سونا چاندی، چرائی پر چھوٹے جانور، تجارت کا مال ہے و بس، اور سال گزرنا شرط ہے، صدقہ فطر و قربانی میں یہ کچھ درکار نہیں کما فی جمیع الکتب (جیسا کہ سب کتابوں میں ہے)۔" (فتاوی رضویہ، ج 10، ص 294، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

صدالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں: "جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کےسوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو ،وہ غنی ہے اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے، ان کے سوا جو چیزیں ہوں، وہ حاجت سے زائد ہیں۔ اوس شخص پر دَین ہے اور اوس کے اموال سے دَین کی مقدارمُجرا کی جائےتو نصاب نہیں باقی رہتی اوس پر قربانی واجب نہیں۔" (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 15، ص 333، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3828

تاریخ اجراء: 17 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 15 مئی 2025 ء