
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نمازِ عید ہوجانے کے بعد خطبے سے پہلے قربانی کرنے سے قربانی ادا ہوجائے گی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شہر میں قربانی درست ہونے کے لیے شرط ہے کہ نمازِ عید پڑھی جاچکی ہو کہ اصل اعتبار نمازِ عید ہوجانے کا ہے، لہٰذا نماز ہوجانے کے بعد خطبے سے پہلے ہی اگر کسی شخص نے قربانی کردی، تو اُس کی قربانی تو ادا ہوجائے گی، لیکن وہ شخص اساءت کا مرتکب ہوگا۔
شہر میں قربانی درست واقع ہونے کے لیے نمازِ عید ہوجانے کا اعتبار ہے۔ جیسا کہ بدائع الصنائع، نہایۃ شرح الھدایۃ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:
”و النظم للاول“ ولو ضحى قبل فراغ الإمام من الخطبة أو قبل الخطبة جاز؛ لأن النبي عليه الصلاة والسلام رتب الذبح على الصلاة لا على الخطبة فيما روينا من الأحاديث فدل أن العبرة للصلاة لا للخطبة “
یعنی اگر امام کے خطبے سے فارغ ہونے سے پہلے یا پھر خطبے سے پہلےہی کسی نے قربانی کر دی تو اُس کی قربانی ادا ہو جائے گی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح کو نماز پر مرتب کیا ہے، نہ کہ خطبہ پر، جو احادیث ہم نے روایت کی ہیں ،وہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اصل اعتبار نماز کا ہے، خطبہ کا نہیں ۔(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، کتاب التضحیۃ،جلد05،صفحہ73،دارالکتب العلمیہ،بیروت)
خطبے سے پہلے قربانی کرنے کی صورت میں وہ شخص اساءت کا مرتکب ہوگا۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
”(وأول وقتھا بعد الصلاة إن ذبح في مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة“
یعنی قربانی کا اول وقت شہر میں نمازِ عید کے بعد سے شروع ہوتا ہے، اگر چہ کہ یہ قربانی خطبے سے پہلے ہو ۔
(ولو قبل الخطبة) کے تحت فتاوٰی شامی میں ہے:
” قال في المنح وعن الحسن: لو ضحى قبل الفراغ من الخطبة فقد أساء“یعنی ’’منح الغفار ‘‘میں ہے :امام حسن علیہ الرحمۃ سے روایت ہے کہ اگر خطبہ سے فارغ ہونے سے پہلے قربانی کرلی تو قربانی ہوجائے گی، لیکن وہ شخص اساءت کا مرتکب ہوگا ۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الاضحیۃ، ج 09، ص 527،528، مطبوعہ پشاور)
(ولو قبل الخطبة) کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی الدر میں ہے:
”یکون مسیئاً، انتھی، "حلبی"“
یعنی اس صورت میں وہ اساءت کا مرتکب ہوگا ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ،کتاب الطھارۃ،ج11،ص14،دارالکتب العلیۃ،بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے:”شہر میں قربانی کی جائے ،تو شرط یہ ہے کہ نماز ہوچکے ،لہٰذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہوسکتی ۔۔۔۔اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عید کا خطبہ ہوچکنے کے بعد قربانی کی جائے۔ یعنی نماز ہوچکی ہے اور ابھی خطبہ نہیں ہوا ہے ،اس صورت میں قربانی ہو جائے گی،مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔“ (بھار شریعت، ج 03، ص 337، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13702
تاریخ اجراء:05شعبان المعظم1446 ھ/04فروری 2025 ء