
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Book-171
تاریخ اجراء:08 ذوالحجۃ الحرام1436ھ/23ستمبر 2015ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل منڈی میں جانور خریدنے جائیں، تو اکثر بیوپاریوں نے اپنے جانوروں کو مخصوص نشانیاں لگائی ہوتی ہیں، میں نے رات کو منڈی سے بیل خریدا، لیکن جب صبح دیکھا،تو اس جانور کے ایک کان میں تین چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ میرے لیے اس جانور کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مستحب یہ ہے کہ جانور کے کان، آنکھ، ناک، ہاتھ، پاؤں وغیرہ بالکل صحیح اور عیب سے سلامت ہوں، اگر تھوڑا سا عیب ہو، تو قربانی مکروہ، اگر زیادہ ہو، تو ناجائزاور پوچھی گئی صورت میں جس بیل کے کان میں تین سوراخ ہیں، اگر وہ مل کر تہائی کان کی مقدار یا اس سے کم ہیں اور کوئی دوسرا مانع ِقربانی عیب بھی نہیں، تو ایسے جانور کی قربانی جائز تو ہے،مگر مکروہ وخلاف اولیٰ ہے۔
جامع صغیر میں ہے: ’’وان قطع من الذنب او الاذن او الالیۃ الثلث او اقل اجزاہ وان کان اکثر لم یجز‘‘ ترجمہ :اگر جانورکی دم یاکان یاچکی کاایک تہائی یااس سے کم حصہ کٹاہواہو، تواس کی قربانی جائز ہے اوراگرایک تہائی سے زیادہ حصہ کٹاہو،تواُس جانورکی قربانی جائزنہیں ہے۔(الجامع الصغیر،کتاب الذبائح، ص473، مطبوعہ عالم الکتب، بیروت)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے :''تجزی الشرقاء وھی مشقوقۃ الاذن طولا، والمقابلۃ ان یقطع من مقدم اذنھا شیء ولا یبان بل یترک معلقا، والمدابرۃ ان یفعل ذٰلک بمؤخر الاذن من الشاۃ، وماروی ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نھی ان یضحی بالشرقاء والمقابلۃ والمدابرۃ والخرقاء فالنھی فی الشرقاء والمقابلۃ والمدابرۃ محمول علی الندب وفی الخرقاء علی الکثیر علی اختلاف الاقاویل فی حدالکثیر،کذا فی البدائع'' ترجمہ: شرقاءکی قربانی جائز ہے اوریہ ایسی بکری ہے جس کے کان لمبائی میں چرے ہوئے ہوں اور مقابلہ (کی قربانی بھی جائز ہے اوریہ)ایسی بکری ہے جس کے کان کا اگلا حصہ کچھ کٹا ہو،لیکن جدا نہ ہو، بلکہ لٹکا ہوا ہو اور مدابرہ (کی قربانی بھی جائز ہے اوریہ)ایسی بکری ہے جس کے کان کاپچھلا حصہ اسی طرح کٹاہو اور جو حدیث مروی ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے شرقاء،مقابلہ، مدابرہ اور خرقاء کی قربانی سے منع فرمایا ہے، تو شرقاء، مقابلہ اور مدابرہ میں یہ نہی استحباب پہ محمول ہےاور خرقاء میں کان زیادہ کٹے ہونے پر محمول ہے اور زیادتی کی حد میں اقوال مختلف ہیں۔ ایسے ہی بدائع الصنائع میں ہے۔(فتاوٰی عالمگیری،جلد5 ،ص76، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت )
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے سوال ہواکہ ایک گائے کا کان چرا ہوا ہے جیسے گاؤں کے لوگ بچپن میں کان چیر دیتے ہیں کہ طول یا عرض میں شق ہوجاتاہے، مگر وہ ٹکرا کان ہی میں لگا رہتا ہے، جدا نہیں ہوتا۔۔ ایسی گائے کی قربانی شرعاجائز ہے یانہیں؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا : ’’ بلا شبہہ جائز ہے، مگر مستحب یہ ہے کہ کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں بالکل سلامت ہوں۔‘‘(فتاوٰی رضویہ،ج20، ص458، مطبوعہ رضا فاؤ نڈیشن، لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں :’’اور جس کے کان یادم یاچکی کٹے ہوں، یعنی وہ عضوتہائی سے زیادہ کٹا ہو،ان سب کی قربانی ناجائزہے اور اگرکان یادم یاچکی تہائی یااس سے کم کٹی ہو، تو جائز ہے۔‘‘(بہار شریعت ج3،ص341،مطبوعہ مکتبۃالمدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم