
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Book-176
تاریخ اجراء:26ذی القعدہ1439ھ/09اگست 2018ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
(1)کیاقربانی کے جانور کی کھال مدرسہ میں دے سکتے ہیں؟
(2)کھالیں وصول کرنے کے بعد مدرسہ انتظامیہ اسے بیچ کر مدرسہ کی تعمیر اور مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والےبچوں پر خرچ کر سکتی ہے یا نہیں؟سائل عثمان عطاری (فیصل آباد)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)جی ہاں !قربانی کے جانورکی کھال مدرسہ میں دے سکتے ہیں۔
قربانی کے متعلق نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا :”فكلوا وادخروا واتجروا“ ترجمہ :اسے کھاؤ،اٹھا رکھو اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرو۔ (سنن ابو داؤد ،کتاب الضحایا،باب فی حبس لحوم الاضاحی، ج2، ص40، لاہور)
قربانی کے کھال کا مصرف بیان کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں:”ہر قربت کے کام میں صرف کر سکتے ہیں، جیسے مدرسہ دینیہ کی اعانت۔۔ اس کار قربت مثل مسجد یا مدرسہ دینیہ یا تعلیم یتیماں میں صرف کرنے کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ خود اس نیت سے بیچ کر اس کار خیر میں صرف کرنے والوں کو دے دیں۔“(فتاوی رضویہ، ج20، ص495، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
(2) مدرسہ کی انتظامیہ ان کھالوں کو بیچ کرمدرسہ کی تعمیر اور طلباء پر معروف طریقے سے خرچ کر سکتی ہے۔
قربانی کی کھال کے متعلق اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :”مسجد میں دے سکتے ہیں۔۔ پھر مہتممان مسجد کو اختیار ہے کہ اسے بیچ کر مسجد کے جس کام میں چاہیں لائیں، اگرچہ امام موذن یا فراش کی تنخواہ ۔۔ مہتمم مدرسہ کو دے دے وہ تنخواہ میں دے، یا جس کار دینی مدرسہ دینیہ میں چاہے صرف کرے، مدرسہ دینیہ کی عمارت میں خرچ کر سکتا ہے کہ قربت ہے۔۔ اسے کتابوں سے بدل کر طلبہ کو دے سکتے ہیں۔“(فتاوی رضویہ، ج20، ص 494تا496، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم