قربانی کی کھال مسجد میں دینے کا حکم

قربانی کی کھال مسجد میں دے سکتے ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ کیا قربانی کی کھال مسجد میں دے سکتے ہیں؟ بعض لوگوں سے سنا ہے کہ قربانی کی کھال صرف مدرسہ میں لگ سکتی ہے، مسجد میں نہیں۔ برائے کرم شرعی رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

قربانی کی کھال ہر نیک، جائز اور ثواب والے کام میں خرچ کی جا سکتی ہے اور جس طرح مدرسہ کی ضروریات میں خرچ کرنا، کارِ ثواب ہے، یونہی مسجد کی ضروریات و اخراجات میں خرچ کرنا بھی ثواب کا کام ہے، لہٰذا قربانی کی کھال مسجد کے جملہ مصارف کے لیے دینابلاشبہ جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔ قربانی کےجانور کے گوشت و کھال وغیرہ کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:

’’فکلوا و ادخروا و اتجروا‘‘

ترجمہ: تم اسے کھاؤ، جمع رکھواور ثواب کے کام میں خرچ کرو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب حبس لحوم الاضاحی، جلد 2، صفحہ 40، مطبوعہ لاھور)

مذکورہ بالاحدیثِ پاک میں بیان کردہ حکمِ شرعی کی وسعت اور اس عموم میں داخل قربانی کی کھال کا مصرف بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340 ھ / 1921 ء) لکھتے ہیں:”مسجد یالوجہ اللہ مسافر خانہ وغیرہ آرام مسلمانان کی عمارت بنانا جس میں اجر ہو اور حصول اجر ہی کی نیت ہو، بالجملہ ہر اس کام میں جو شرعا قربت ہو، قربانی کی کھال صرف کرنا ہر گز ممنوع نہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اضحیہ کی نسبت جیسا "تصدقوا"فرمایا، صدقہ کرو، یونہی"و ائتجروا"بھی ارشاد فرمایا وہ کام کرو جس میں ثواب ہو،رواہ ابوداؤد عن نبشۃ الھذلی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ(یعنی اسے ابوداؤد نے نبشہ ہذلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا)۔ (سنن ابی داؤد کتاب الضحایا باب حبس لحوم الاضاحی، آفتاب عالم پریس، لاہور 3/33)۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 474، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مزید لکھتے ہیں:’’قربانی کی کھال ہر اس کام میں صَرف کر سکتے ہیں، جو قربت و کارِ خیر و باعثِ ثواب ہو، حدیث میں ہے:

’’فکلوا و ادخروا و ائتجروا۔‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 473، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک مقام پر امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ’’قربانی کے چمڑوں کو للہ مسجد میں دے دینا کہ انہیں یا ان کی قیمت کو متولی یا منتظمانِ مسجد، مسجد کے کاموں مثلاً ڈول، رسی، چراغ، بتی، فرش، مرمت، تنخواہِ مؤذن، تنخواہِ امام وغیرہ میں صرف کریں، بلا شبہ جائز و باعثِ اجر و کارِ ثواب ہے، تبیین الحقائق میں ہے:

’’جاز لانہ قربۃ کالتصدق‘‘

ترجمہ: جائز ہے، کیونکہ یہ صدقہ کی طرح قربت(کارِ ثواب) ہے۔‘‘

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9362

تاریخ اجراء: 08 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 05 جون 2025 ء