
مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری
مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Book-178
تاریخ اجراء:16ربیع الثانی 1438ھ/15 جنوری 2017ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد کے امام صاحب تنخواہ لیتے ہیں اور صاحب نصاب بھی ہیں، اس حالت میں ان کو قربانی کی کھال دے سکتے ہیں یا نہیں؟ شرعی رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسجد کے امام کو قربانی کی کھالیں تنخواہ یا اجرت کے طور پر براہ راست نہ دی جائیں، البتہ اگر کھالیں تنخواہ اور اجرت کے طور پر نہ ہوں، بلکہ امام کو ہدیہ کے طور پر دی جائیں، تو جائز ہے، اگرچہ امام مسجد سے تنخواہ لیتا ہو اور خود صاحب نصاب ہو، اسی طرح اگر کھالیں مسجد میں دی جائیں اور متولی مسجد وہ کھالیں بیچ کر ان سے حاصل ہونے والی رقم امام صاحب کوتنخواہ کے طور پر دے، تو یہ تنخواہ دینا بھی جائز ہے۔
سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت اما م احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ” قربانی کی کھال امام مسجد کو دینا جائز ہے، اگر وہ فقیر ہو اور بطور صدقہ دیں، یا غنی ہو اور بطور ہدیہ دیں، لیکن اگر اس کی اجرت اور تنخواہ میں دیں، تو اس کی دو صورتیں ہیں، اگر وہ اپنا نوکر ہے، تو اس کی تنخواہ میں دینا جائز نہیں اور اگر وہ مسجد کا نوکر ہے اور کھال مہتمم مسجد کو مسجد کے لیے دے دی اس نے مسجد کی طرف سے امام کی تنخواہ میں دے دی، تو اس میں کچھ حرج نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد20، ص 480،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک اور سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:” (قربانی کی کھال) اگر تنخواہ میں دے، تو امام اگر اس کا نوکر ہے جس کی تنخواہ اسے اپنے مال سے دینی ہوتی ہے، تو دینا ناجائز کہ یہ وہی تمول ہوا جو ممنوع ہے اور اگر وہ مسجد کا نوکر ہے جس کی تنخواہ مسجد دیتی ہے، تو جائز ہے کہ یہ مسجد میں دےدے اور مسجد کی طرف سے امام کی تنخواہ میں دی جائے۔“(فتاوی رضویہ، جلد20، ص480، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ”چرم قربانی خود بھی استعمال میں لا سکتے ہیں اور دوسرے کو بھی دے سکتے ہیں، اگر امام کو دیا جب بھی حرج نہیں بشرطیکہ یہ دینا اجرت ِ امامت میں نہ ہو، بلکہ بغرض اعانت ہو، در مختار میں ہے: و یتصدق بجلدھا أو یعمل منہ نحو غربال و جراب۔ یوہیں نفلی صدقہ بھی امام کو دے سکتے ہیں، ہاں اگر صدقہ واجبہ ہے جیسے صدقہ فطر اور امام غنی ہو ،تو اسے نہیں دے سکتے اور اجرت ِامامت میں بھی نہیں دے سکتے، امام کو نوکر رکھنا مثلاً ماہانہ اتنا دیا جائے گا یہ جائز ہے، مگر یہ اجرت صدقۂ فطر یا زکوٰۃ یا چرم قربانی سے ادا نہ کی جائے، بلکہ مسجد کی آمدنی سے یا چندہ کر کے تنخواہ ادا کریں۔“(فتاوی امجدیہ ،ج3، ص 312، مکتبہ رضویہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم