کیا تنخواہ دار امام کو قربانی کی کھالیں دے سکتے ہیں؟

تنخواہ لینے والے امام کو قربانی کی کھالیں دینا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک امام مسجد ہیں جو خود صاحب نصاب ہیں، وہ نماز پنجگانہ، نماز جمعہ اور نماز جنازہ بغیر کسی اجرت یا تنخواہ کے پڑھاتے ہیں اور مسجد میں آنے والے بچوں کو ناظرہ بھی مفت میں پڑھاتے ہیں، البتہ عیدین کے موقع پر تقریباً تین چار ہزار روپیہ ان کو دیا جاتا ہے، یہ امام صاحب تقریباً پچھلے پندرہ سال سے یہ خدمت کر رہے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ ان امام صاحب کو قربانی کی کھالیں دی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ شرعاً اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

امام کو قربانی کی کھالیں تنخواہ یا اجرت کے طور پر دینا تو جائز نہیں، البتہ اگر کھالیں تنخواہ اور اجرت کے طور پر نہ ہوں، بلکہ امام کو ہدیہ کے طور پر دی جائیں یا مسجد میں دی جائیں اور متولی مسجد وہ کھالیں بیچ کر ان سے حاصل ہونے والی رقم امام صاحب کوسالانہ وظیفہ کے طور پر دے جیسا کہ سوال میں بیان ہے، تو جائز ہے۔

سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت اما م احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ’’قربانی کی کھال امام مسجد کو دینا جائز ہے، اگر وہ فقیر ہو اور بطور صدقہ دیں یا غنی ہو اور بطور ہدیہ دیں، لیکن اگر اس کی اجرت اور تنخواہ میں دیں، تو اس کی دو صورتیں ہیں، اگر وہ اپنا نوکر ہے، تو اس کی تنخواہ میں دینا جائز نہیں اور اگر وہ مسجد کا نوکر ہے اور کھال مہتمم مسجد کو مسجد کے لیے دے دی اس نے مسجد کی طرف سے امام کی تنخواہ میں دے دی، تو اس میں کچھ حرج نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 20، ص 480، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’(قربانی کی کھال) اگر تنخواہ میں دے، تو امام اگر اس کا نوکر ہے جس کی تنخواہ اسے اپنے مال سے دینی ہوتی ہے، تو دینا، ناجائز کہ یہ وہی تمول ہوا جو ممنوع ہے اور اگر وہ مسجد کا نوکر ہے جس کی تنخواہ مسجد دیتی ہے، تو جائز ہے کہ یہ مسجد میں دےدے اور مسجد کی طرف سے امام کی تنخواہ میں دی جائے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 20، ص 480، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:چرم قربانی خود بھی استعمال میں لا سکتے ہیں اور دوسرے کو بھی دے سکتے ہیں، اگر امام کو دیا جب بھی حرج نہیں بشرطیکہ یہ دینا اجرت ِ امامت میں نہ ہو، بلکہ بغرض اعانت ہو، در مختار میں ہے:

و یتصدق بجلدھا أو یعمل منہ نحو غربال و جراب۔

یوہیں نفلی صدقہ بھی امام کو دے سکتے ہیں، ہاں اگر صدقہ واجبہ ہے جیسے صدقہ فطر اور امام غنی ہو ،تو اسے نہیں دے سکتے اور اجرت ِامامت میں بھی نہیں دے سکتے، امام کو نوکر رکھنا مثلاً ماہانہ اتنا دیا جائے گا یہ جائز ہے، مگر یہ اجرت صدقہ فطر یا زکوٰۃ یا چرم قربانی سے ادا نہ کی جائے، بلکہ مسجد کی آمدنی سے یا چندہ کر کے تنخواہ ادا کریں۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد 3، ص 312، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: Book-177

تاریخ اجراء: 20 شوال المکرم 1434ھ / 28 اگست 2013ء