Sona Chandi Aur Raqam Nisab Ke Barabar Hon To Zakat Aur Qurbani Ka Hukum

سونا چاندی اور رقم مل کر نصاب کے برابر ہوں تو زکوٰۃ و قربانی کا حکم

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Book-155

تاریخ اجراء:07 ذوالحجۃ الحرام 1436ھ/22 ستمبر 2015ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس تین چار تولے سونا، دس بارہ تولے چاندی اور تقریبا پچیس ہزار روپے رکھے ہیں اور ان پر سال بھی پورا ہو چکا ہے، ان تینوں چیزوں میں سے کوئی بھی نصاب کو نہیں پہنچتی، تو اس صورت میں اس پر زکوٰۃ اور قربانی واجب ہو گی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورت مسؤلہ میں شخص مذکور صاحب نصاب ہے اور اس نصاب پر سال بھی پورا ہو چکا ہے، تو اب سونے ، چاندی اور رقم کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دینا اس پر فرض ہے اورایام قربانی میں اس مال کی موجودگی کی صورت میں  اس پر قربانی بھی واجب ہے۔

   درمختار میں ہے: ’’نصاب الذھب عشرون مثقالا والفضۃ مائتادرھم أو عرض تجارۃ قیمتہ نصاب من ذھب أو ورق مقوما بأحدھما ربع عشر۔‘‘ یعنی سونے کا نصاب بیس مثقال اور چاندی کا دوسو درہم  ہےیا تجارت کا سامان جس کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر ہو اس پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ واجب ہے۔(درمختار مع ردالمحتار، جلد3، ص224، مطبوعہ ملتان)

   اسی میں ہے :’’و شرط کمال النصاب فی طرفی الحول فی الإبتداء للانعقاد و فی الإنتھاء للوجوب فلا یضر نقصانہ بینھما فلو ھلک کلہ بطل الحول‘‘ یعنی سال کی دونوں طرفوں (اول وآخر)میں نصاب پورا ہونا شرط ہے ،ابتدا میں انعقاد کے لیے اور انتہا میں وجوب کے لیے، ان دونوں کے درمیان نصاب میں کمی اس کو ضرر نہیں دیتی ۔اگر سارا مال ہلاک ہو گیا، تو پھر سال باطل ہوجائے گا۔(درمختار مع ردالمحتار، جلد3، ص233، مطبوعہ  ملتان)

   مفتی وقارالدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں: ”تیسری صورت یہ ہے کہ سونا مقدارنصاب سے کم ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ چاندی یا روپے وغیرہ کا بھی مالک ہے، تو اس وقت وزن کا اعتبارنہ ہوگا، بلکہ قیمت کا اعتبارہوگا، لہذا سونے کی قیمت لگا ئی جائے گی اور چاندی کی قیمت اور نقد روپوں سب کو سونے کی قیمت کے ساتھ ملاکر دیکھا جائے گا کہ اگر یہ مجموعہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابریا اس سے زائد ہے، تو اس پر زکوۃ فرض ہے اور اگر ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت سے کم ہے، تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہوگی۔‘‘(وقارالفتاوی، جلد2،ص387، مطبوعہ کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن قربانی کے نصاب کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ قربانی واجب ہونے کے لیے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصلی حاجتوں کے علاوہ 56 روپے کے مال (ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کی مقدار) کا مالک ہو، چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل یا بھینس یا کاشت۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد20، ص370، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   ایک اور مقام پر مزید فرماتے ہیں: ’’صاحب نصاب جو اپنے حوائج اصلیہ سے فارغ چھپن روپے کے مال (ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت)کا مالک ہو اس پر قربانی واجب ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد20، ص371،372، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم